مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: گذشتہ روز اسرائیلی فضائیہ کے F-35 طیاروں نے مقبوضہ گولان سے دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت اور سفیر کی رہائش گاہ کو چھے گائیڈڈ میزائلوں سے نشانہ بنایا۔
اس جارحیت کے ممکنہ شہداء کی لاشوں کی تلاش کے لیے جاری اقدامات میں شدت کے باوجود اب تک شہداء اور زخمیوں کی تعداد بارہ بتائی جا چکی ہے۔ شہید ہونے والوں میں جنرل محمد زاہدی کا نام بھی شامل ہے جو سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈروں میں سے ایک تھے۔ ان کے علاوہ سردار محمد ہادی حاجی رحیمی، شام اور لبنان میں پاسداران انقلاب کے چیف آف اسٹاف سردار حسین امیر اللہ اور شام میں موجود متعدد ایرانی فوجی مشیروں کے شہادت واقع ہوچکی ہے۔
اس تجزیاتی رپورٹ میں شام میں ایرانی فوجی مشیروں کے خلاف صیہونی حکومت کی ٹارگٹ کلنگ کی تاریخ کا مختصر جائزہ لینے کے بعد ہم اس دہشت گردانہ کارروائی کے مقاصد، نتائج اور ایرانی سرزمین پر واضح جارحیت کا جائزہ لیں گے۔
صیہونی رجیم کی مقاومت کے خلاف دہشت گردی
شام میں داعش اور تکفیری دہشت گردوں کا فتنہ ٹھنڈا پڑنے پر، صیہونی فوج نے "ہزار خنجر" کی حکمت عملی کے تحت مزاحمتی فورسز، ان کے گوداموں، ہوائی اڈوں اور ایرانی فوجی مشیروں کی رہائش گاہوں پر حملے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا۔
اس حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تل ابیب نے ایک طویل المدتی منصوبے کے تحت تدریجی مزاحمتی قوتوں کے خلاف حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن اور صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمتی محور کے مربوط اور زبردست حملوں کے بعد شام اور لبنان میں اسرائیلی دہشت گرد رجیم کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
مثال کے طور پر، 25 دسمبر 2023ء کو دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے سینئر سفارت کار اور شام میں پاسداران انقلاب اسلامی کے تجربہ کار مشیر اور مزاحمت کے لاجسٹک ڈیپارٹمنٹ کی اہم شخصیت شہید جنرل سید رضی موسوی کو اسرائیلی فوج نے نشانہ بنایا۔
شام میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر حسین اکبری کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے ان کی رہائش گاہ کو تین میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں جنرل رضی شہید ہوگئے۔
حالیہ مہینوں میں دمشق پر اسرائیلی فوج کے حملے میں سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے انٹیلی جنس ونگ کے معاون، جنرل صادق امید زادہ اور ان کے نائب حاج محرم کو نشانہ بنایا گیا۔ اس دہشت گردانہ حملے کے دوران صیہونی طیاروں نے ایک تین منزلہ عمارت کو نشانہ بنایا جہاں ایرانی سیکورٹی فورسز رہائش پذیر تھیں۔
اس سے پہلے اسرائیلی رجیم نے اعلیٰ سطح کے ایرانی مشیروں جیسے شہید مرتضیٰ سعیدنژاد، احسان کربلائی پور، محمد علی عطائی شورچہ، پناہ تقی زادہ اور حجت الٰہ امیدوار کو نشانہ بنایا لیکن مذکورہ بالا دہشت گردانہ کارروائیاں ایران کو شام کی قانونی حکومت کی حمایت اور محور مزاحمت سے نہیں روک سکیں۔
قدس فورس کے کمانڈروں کو قتل کرنے کا مقصد کیا ہے؟
دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر اسرائیلی حملے کے صرف ایک گھنٹے بعد مختلف ذرائع حملے کے دائرہ کار اور اہداف کے حوالے سے متعدد وجوہات بیان کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگری اس دہشت گردانہ کارروائی کے چند گھنٹے بعد ٹیلی ویژن کی اسکرین پر نمودار ہوئے اور اس دہشت گردانہ واقعے کا ذکر کیے بغیر ایلات شہر میں اس رجیم کی بحریہ پر عراقی مزاحمت کے ڈرون حملے کی تصدیق کی۔
بعض تجزیہ نگاروں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی منظوری اور غزہ کی پٹی میں نسل کشی روکنے کے لیے صیہونی حکومت سے عالمی برادری کے مطالبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دمشق پر صیہونیوں کے حالیہ حملے کو نیتن یاہو کی جانب سے اپنے مفادات حاصل کرنے کی ایک جارحانہ کوشش قرار دیا ہے۔ ان مبصرین کے مطابق یہ حملہ صیہونی رائے عامہ کو دھوکہ دینے اور شمالی محاذ پر جنگ کو پھیلانے ایک کوشش ہے۔
جب کہ اسرائیل کی جنگی کابینہ ایک پروپیگنڈہ مہم کے ذریعے رفح پر حملے کو حماس کی سیاسی و عسکری زندگی کے خاتمے کے طور پر دکھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن دوسری طرف حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور اسلامی جہاد کے سکریٹری جنرل زیاد نخالہ کا دورہ تہران، اسرائیلی میڈیا مہم کے برعکس مزاحمت کے مضبوط وجود کا اظہار ہے۔ جب کہ صیہونی کابینہ میں نیتن یاہو اور ان کے دائیں بازو کے اتحادیوں کے لیے اسرائیلی ووٹروں کی مقبولیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
ایسے میں موجودہ اسرائیلی کابینہ مختلف محاذوں پر سیاسی اور عسکری مہم جوئی کے ذریعے اقتدار میں رہنے اور آئندہ انتخابات جیتنے کے اپنے امکانات کو آزمانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایرانی سرزمین پر اسرائیل کی جارحیت کے نتائج
کل کے حملے سے قبل صیہونی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے قدس فورس، مزاحمتی محور کی شخصیات یا شامی حکومت سے وابستہ غیر سیاسی ٹھکانوں اور مراکز کو نشانہ بنایا۔
تاہم ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی حکام نے اسلامی جمہوریہ ایران سے وابستہ سفارتی مراکز پر حملہ کرکے تہران کے ساتھ جنگ کی سطح اور میدان کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ویانا کنونشن کے مطابق ممالک کے سفارتی مراکز پر حملہ اس ملک کی سرزمین پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔
یہ مسئلہ بین الاقوامی قانون کے قطعی اور ناقابل استثناء مسائل میں سے ہے کہ ممالک کو سفارتی مقامات کے استثنیٰ کا احترام کرتے ہوئے جنگ کے دوران بھی ان پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔
اسی بنیاد پر ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے ایک بیان میں عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے سخت ترین لہجے میں اس جرم کی مذمت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس لیے اسلامی جمہوریہ ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس فوجی جارحیت کا جواب کسی بین الاقوامی قانونی چارہ جوئی کے بغیر مکمل طور پر قانونی اور جائز طریقے سے دے اور ایران کے ممکنہ ردعمل کے بعد تل ابیب تہران پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام نہیں لگا سکتا۔
اس صورت حال میں تجزیہ کاروں کا ابتدائی اندازہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی اسرائیل کے اقدامات کے جواب کی سطح میں اضافہ کرے گا۔
اس مساوات میں صرف تہران ہی صہیونی جارحیت کا جواب دینے کا حق اور صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ پورے خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مناسب وقت اور جگہ پر اس جرم کا جواب دے سکتا ہے۔
اس لمحے تک ایرانی حکومت کے سرکاری عہدیداروں کے تبصروں کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ تہران کا جوابی ردعمل یقینی ہے لیکن اس ردعمل کا دائرہ واضح نہیں ہے۔
بعض مغربی ذرائع ابلاغ جیسے فاکس نیوز کا خیال ہے کہ اسرائیل کے حملے کے ردعمل کے پورے خطے میں بہت سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
ایران دنیا بھر میں اسرائیل کے سفارتی مراکز کو نشانہ بنانے اور اسرائیل کے اعلیٰ کمانڈروں کو بلیک لسٹ کرنے کے امکان کے علاوہ، وہ اپنے اہداف کی فہرست میں اسرائیل کے حساس مراکز جیسے بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، تجارتی اور فوجی مراکز کو شامل کر سکتا ہے۔
دمشق میں اعلیٰ مزاحمتی کمانڈروں کی شہادت پر ایران کا مساوی اور منہ توڑ جواب اسرائیلی جارحیت اور اس کی ملکوں کی سالمیت کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قوانین کو پاوں تلے روندتے ہوئے عالمی امن کو نقصان پہنچانے کی ضد کے تابوت پر آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے۔