اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی اور انتخابی نظام کا "جمہوریت" اور "اسلامیت" کے دوہرے فریم ورک میں جائزه لیا جا سکتا ہے۔ یه بنیادی طور پر انتخابی عمل کے مختلف مراحل میں ایک ایسا ادارہ جاتی ماڈل ہے جو دوسرے ممالک کے سیاسی انتخابی ڈھانچے سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: ایران میں ماہرین کی کونسل کے انتخابات کا چھٹا دور یکم مارچ 2024 کو پارلیمنٹ کے انتخابات کے  وقت منعقد ہوگا؛ یہ ایک اہم سیاسی روداد ہے  جس کے لئے ملک کے سیاسی اور انتخابی نظام کو متعارف کروانے کے مقصد سے  تجزیاتی رپورٹس کا ایک سلسلہ  ضبظ تحریر میں لایا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی اور انتخابی نظام کے بنیادی اجزاء کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

 "جمہوریت" اور "اسلامیت"؛ قانونی حیثیت فراہم کرنے والے دو اصول

جمہوریت اوراسلامیت اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کے دو بنیادی ستون ہونے کے ساتھ ،ملک کے سایسی نظام کو قانونی جواز فراہم کرنے والے دو اہم ماخذ بھی ہیں۔ اسی لیے ایران کے آئین اور دوسرے ممالک کے آئین میں سب سے اہم فرق اس میں اسلام کی مضبوط اور فعال موجودگی ہے۔ 

دوسرے لفظوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی دو خصوصیات ہیں جن میں سے ایک اس کی رسمی حیثیت سے متعلق ہے اور دوسری اس کی اصلی اور بنیادی حیثیت سے۔  ریاست کے سیاسی ڈھانچے کے اعتبار سے ایران وہی جمہوری شکل رکھتا ہے کہ جہاں عوام انتخابات میں شرکت کے ذریعے ملک کے تمام اہم امور سے متعلق فیصلوں میں شریک ہوتے ہیں اور عوامی ووٹ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔

لیکن ملک کا اساسی آئینی ڈھانچہ اسلامی ہونے سے عبارت ہے کہ جس کے تمام قوانین کا اسلامی ہونا ضروری ہے۔ یعنی  ملک کے تمام قوانین اسلامی معیار کے مطابق ہوں ۔ ایران کے آئین کی بنیادی اسلامی حیثت ہی اسے دیگر ممالک کے آئین اور قوانین سے ممتاز کرتی ہے۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی اسلامی نوعیت کا اندازہ درج ذیل اصولوں کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔

1: تکوین (تخلیق) اور تشریع  (قانون سازی) میں خدا کی حاکمیت کو قبول کرنا۔ 
2: قوانین اور ضوابط کی اسلامی معیارات سے مطابقت کی ضرورت یا کم از کم اسلامی معیارات سے ان کا عدم تضاد۔ 
3: عدل و انصاف کے قیام اور اقدار کے احیاء کی ضرورت
 4: ولایت امر اور امت کی امامت کو قبول کرنا
 5: ملکی حکام کے لیے علمی اور اخلاقی قابلیت کی شرط کا ضروری ہونا۔

نیز کلی طور پر جمہوریت کے عنوان سے اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں عوام کی شرکت اور مختلف میدانوں میں ان کی موجودگی پر تاکید کی گئی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 56 میں حق خودارادیت کو خودمختاری اور سیاسی طاقت کا ذریعہ تسلیم کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں آئین کی دیگر شقوں میں بھی اس حق کے استعمال کا طریقہ اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے ووٹنگ کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر آئین کا چھٹا آرٹیکل اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں ملکی معاملات کا انتظام عوامی ووٹوں پر ہوتا ہے۔

آئین کے دیگر بہت سے آرٹیکلز اور دفعات میں، جہاں قیادت کے عہدوں، صدر، ماہرین کی کونسل، پارلیمنٹ، مقامی کونسلوں اور ریفرنڈم کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں انتخابات کے اہم زمرے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح ایران کے سیاسی قانونی نظام میں انتخابات کا مسئلہ بنیادی زمرہ ہے اور اس نظام کے جمہوری پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔ بنا بر این عوام کی انتخابات میں شرکت کو ’’اسلامی جمہوریہ ایران‘‘ کا بنیادی اصول اور اساسی رکن سمجھا جا سکتا ہے۔ انتخابات میں شرکت پر یقین کا اصول قوم کے حق حکمرانی پر یقین پر مبنی ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنی تمام جہات اور دائرہ ہائے کار میں عوام کی مرضی پر مبنی ہو۔ دوسری طرف جمہوریت کے سب سے بنیادی اصول کے طور پر لوگوں کی شرکت مقابلے کے اصول کو قبول کرنے کے ساتھ ہوگی جس سے مثبت رقابت کو فروغ ملے گا۔ 

عام طور پر جمہوریت یا دوسرے لفظوں میں قوم کے حق حکمرانی کو حاصل کرنے کے لیے درج ذیل پانچ اصولوں پر غور کرنا ضروری ہے۔

 1. شرکت
 2. مقابلہ یا رقابت
 3. اقلیت پر اکثریت کے ووٹ کی ترجیح
 4. طاقت کی نگرانی اور کنٹرول
 5. ذمہ داری یا مسئولیت

سیاست اور حکومت کے ارکان دو اہم الہی اور عوامی اصولوں پر قائم ہیں۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی نظام کا بنیادی سربراہ ایک مذہبی اور روحانی پیشوا (ولی فقیہ) ہوتا ہے جس کا انتخاب معاشرے کے سینئرعلمائے دین (مجتہدین یا فقہا) کرتے ہیں، جنہیں "ماہرین" کہا جاتا ہے۔ وہ ماہرین جو اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر کے انتخاب اور آئین کے اصول 107، 108 اور 111 کی بنیاد پر اس کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے ذمہ دار ہیں اور وہ خود عوام کے منتخب کردہ ہوتے ہیں۔ 

اسلامی جمہوریہ نظام کے آئینی فریم ورک میں "جمہوریت" کے ساتھ "اسلامیت" (جمہوریت کا اسلامی اصولوں  کے مطابق ہونا ضروری ہونے) کا اصول  ایک اساسی رکن کے طور پر فیصلہ کن حیثیت میں موجود ہے۔ اس اصول پر مبنی حکومتی ڈھانچہ دوسرے جمہوری ماڈلز کی طرح، تین بنیای شعبوں مقننہ، منتظمہ اور عدلیہ پر مشتمل ہے۔ دریں اثنا، آئین کے مطابق پارلیمنٹ یا دوسرے لفظوں میں شورائے اسلامی  ایک اہم حیثیت رکھتی ہے اور معاملات کی سربراہی کرتی ہے۔ 

قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے، اور کچھ نگران اختیارات پارلیمنٹ کی سرگرمیوں کے دائرہ کار میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کے احکام اور غیر ملکی معاہدوں کو پارلیمنٹ سے منظور کرنا ضروری ہے۔ صدر اور وزراء پر مشتمل کابینہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں، صدر کو کابینہ کی تشکیل کے لیے اپنے مجوزہ وزراء کے لیے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوگا۔

جب کہ بعض حالات میں پارلیمنٹ سوالات پوچھ کر اور وزراء کا مواخذہ کر سکتی ہے یا صدر کی برطرفی کے لیے نااہلی کی تجویز بھی دے سکتی ہے، صدر کو پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا حق نہیں ہے۔ دوسری طرف، صدر کے پاس حکومتی اور انتظامی امور کے انتظام کے لیے اہم اختیارات ہیں۔

صدر اور شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کے ارکان کے برعکس عدلیہ کے سربراہ کا انتخاب رہبر (ولی فقیہ) کرتے ہیں۔

ایران کے سیاسی نظام میں گارڈین کونسل جیسا ادارہ موجود ہے جس کے فرائض فرانس کی "آئینی کونسل" کی طرح ہیں۔ بارہ رکنی گارڈین کونسل کے ممبران فرانس کی آئینی کونسل کی طرح منتخب ہوتے ہیں۔ گارڈین کونسل کے اراکین میں سے 6 مذہبی اسکالرز یا فقہا کو رہبر کی طرف سے نامزد کیا جاتا ہے جب کہ عدلیہ کے سربراہ کی طرف سے چھے وکلاء کو نا مزد کیا جاتا ہے جنہیں پارلیمنٹ کی منظوری سے مقرر کیا جاتا ہے۔

ایکسپیڈینسی کونسل ایک اور ادارہ ہے جو اپنے حقیقی اور قانونی ارکان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کی عمومی پالیسیوں کے مسودے کی تیاری اور تجویز کرنے، آئینی نظرثانی کونسل میں شرکت، قیادت کو مشورے فراہم کرنے جیسے کاموں کے لیے ذمہ دار ہے۔ اسی طرح گارڈین کونسل اور پارلیمنٹ کے درمیان تنازعات کو حل کرنا بھی اس کونسل کے فرائض میں شامل ہے۔

عام طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومتی نوعیت ایک قسم کی قانونی اور آئنیی حکومت کی  ہے کہ جو رہبر، صدر، پارلیمنٹ اور کونسلوں کے اراکین کے انتخاب اور بنیادی حقوق اور آزادیوں کو تسلیم کرتی ہے جو کہ در حقیقت جمہوری نظام کا ایک اہم ترین مظہر ہے۔ دوسری طرف ملکی نظام کا دینی اصولوں پر استوارہونے کے ساتھ دین اسلام کی قانونی حیثیت کا اعلان کرتے ہوئے نظام کے تمام قوانین و ضوابط کو اسلامی معیارات کے مطابق بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے  تمام امور کی باگ ڈور کو ولی فقیہ کے ہاتھ  میں دینا  حکومت کی اسلامی نوعیت کا اہم ترین مظہر ہے۔