مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اقتصادی تجزیہ کاروں نے امریکی روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ گفتگو میں اس بات پر زور دیا ہے کہ صیہونی حکومت کی معیشت کو بہت زیادہ دھچکا لگا ہے اور اس مسئلے سے ٹیکنالوجی سے متعلق شعبوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، جو کہ انتہائی تشویشناک ہے.
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے خلاف جنگ میں تل ابیب رجیم کو ایک دن میں 220 ملین ڈالر کا نقصان پہنچا۔ تل ابیب جنگ میں 220,000 سے زیادہ ریزروسٹوں کو تعینات کرنے اور ان کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بہت زیادہ رقم خرچ کرتا ہے۔
مقبوضہ علاقوں میں طوفان الاقصیٰ آپریشن سے قبل سروے میں 36 فیصد شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ وہ معاشی بحران سے پریشان ہیں۔ یہ بحران جو نیتن یاہو کی مبینہ عدالتی اصلاحات کی منظوری کے بعد مزید گہرا ہوا۔ معاشی صورتحال کی خرابی، مزدوروں کی وسیع ہڑتالیں، ایک سال سے بھی کم عرصے میں نویں بار بینکوں کی شرح سود میں اضافہ اور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی میں 10 گنا اضافہ اس میں شامل ہے۔
طوفان الاقصیٰ کے نتیجے میں صیہونی حکومت کی معاشی صورتحال اس قدر بحرانی ہو گئی ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں بے روزگار افراد کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
کچھ عرصہ قبل صہیونی وزارت محنت نے ایک سرکاری بیان میں اعلان کیا تھا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے 26ویں دن تک 760,000 صہیونی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ معاشی ابتری کے یہ اعداد و شمار تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
اس سے قبل صیہونی حکومت کے مرکزی ادارہ شماریات کی طرف سے الاقصی آپریشن اور غزہ جنگ کے تیسرے ہفتے میں کیے گئے ایک سروے میں بتایا گیا تھا کہ مقبوضہ علاقوں کے شمال اور جنوب میں 65 فیصد کمپنیاں 50 فیصد سے زیادہ کی آمدنی کھو چکی ہیں۔