مہر خبررساں ایجنسی، میگزین ڈیسک؛ آن دنوں انٹرنیشنل گارمنٹس برانڈ "زارا" کی ویب سائٹ کا سوشل میڈیا پر فیشن کلیکشن کو فالو کرنے والے عجیب کلیکشن مشاہدہ کررہے ہیں۔ جس کو سوشل میڈیا صارفین بصری اور پوشاکی جنایت قرار دیتے ہوئے کمپنی کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔
اسپین سے کی معروف بین الاقوامی گارمنٹس برانڈ "زارا" نے اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے غزہ میں اسرائیلی حملے کے بعد درپیش تباہی کے مناظر کی عکاسی کی ہے جس میں کفن میں ملبوس میت کو اشتہاری مجسمے کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے۔
زارا کے اس اشتہار میں سفید کپڑے میں ملبوس میت مسلمانوں کی طرف سے مردے کو دیے جانے والے کفن کی طرف اشارہ ہے۔ ان مناظر کو دیکھنے کے بعد صارفین شدید تنقید کررہے ہیں۔ اشتہار کے کونوں میں غزہ کے نقشے سے ملتا جلتا ایک تابوت، پتھر، ملبہ اور گتے کا ٹکڑا دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ بعض صارفین کا کہنا ہے کہ اس عمل کا مقصد صرف توجہ مبذول کرنا اور کمپنی کا کاروبار بڑھانا ہے تاہم غزہ کے لوگوں کے بے گناہوں کے خون کی توہین مہنگی پڑگئی ہے۔
کوکا کولا، اسٹارباکس اور میکڈونلڈ جیسے بین الاقوامی کمپنیوں کے بائیکاٹ کے بعد زارا نے اس اقدام کے ذریعے خود کو بائیکاٹ کے لئے پیش کردیا ہے۔ اگرچہ اس کلیکشن کا نعرہ صلح کی حمایت ہے لیکن عملی طور پر جدید اشتہار میں متنازع مواد شامل کرکے انسٹاگرام اور ایکس پر بائیکاٹ زارا کا ہیش ٹیگ سرفہرست ہے۔ صارفین کمپنی کی مصنوعات خریدنے سے انکار کررہے ہیں۔
اگرچہ شدید دباو کے بعد زارا نے مذکورہ مناظر ہٹادیے ہیں تاہم اب بھی سوشل میڈیا پر فلسطین کے حامیوں کی جانب سے کمپنی کے خلاف احتجاج کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ عرب ممالک میں عربی اور انگریزی میں بائیکاٹ زارا کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے فلسطین کی حمایت اور اسپینش کمپنی پر اعتراضات جاری ہیں۔
تین لاکھ سے زائد فالوورز رکھنے والی مونا حوا نے لکھا ہے کہ زارا برانڈ نے اپنی نئی مصنوعات کی تشہیر کے لئے غزہ میں نسل کشی کے مناظر سے استفادہ کیا ہے۔ غزہ کے ویران مناظر، کفن اور لاشوں کو دکھانا شہدا کی توہین ہے۔
ایک اور صارف نے لکھا ہے کہ تجارت کو سیاست سے ملانا نامعقول اور احمقانہ عمل ہے جس کا نتیجہ یقینا نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ اس اشتہار میں عصر حاضر کا آرٹ استعمال کرنے کے بجائے فلسطین کا نقشہ، تباہی کے مناظر، کفن اور لاشوں کو دکھایا گیا ہے۔ دوسری تصویر باکس کو غزہ کے لوگوں کے گھر کی علامت کے طور پر دکھایا گیا ہے اور سنہرے بالوں والی ماڈل کو باکس کے مالک کے طور پر دکھایا گیا ہے، دو مرد خاتون کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس طرح دو آدمیوں میں سے ایک دروازے کو پکڑے ہوئے ہے اور دوسرا صندوق کو دوبارہ بنا رہا ہے اور لاشیں ان کے سامنے ہیں۔
ایک صارف نے اشتہار کو دیکھنے کے بعد اس کو تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ زارا ہمارے شہیدوں اور بچوں کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اگر تھوڑی بھی انسانیت ہوتی تو ایسا نہ کرتا۔ ہمیں چاہئے کہ برانڈ کا بائیکاٹ کریں اور دنیا پر واضح کریں کہ ہماری زندگی کی بھی قیمت ہے۔
دوسرے صارف نے لکھا ہے کہ زارا نے صارفین کو غافل سمجھ کر تجارتی مقاصد کے لئے یہ اقدام کیا ہے۔ البتہ اس سے پہلے اسٹاربکس نے بھی اس جیسا عمل انجام دیا تھا جس کے نتیجے بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ میں قطر گیا۔ جوتے کا تسمہ باندھنے کے لئے ایک کرسی پر کچھ دیر کے لئے بیٹھ گیا۔ تھوڑی مدت کے دوران میرے سامنے سے گزرنے والے دس افراد نے مجھے تذکر دیا "اسٹاربکس کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے" کیا نہیں جانتے ہو؟ اس سے کہیں زیادہ لوگ مجھے گھورتے ہوئے سامنے سے گزر گئے۔ جی ہاں! بائیکاٹ کی مہم بہت موثر ہورہی ہے جس سے زارا بے خبر ہے۔
ایک صارف نے فلسطین کے مناظر کو تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو کیوں اپنے اشتہار کا حصہ بناتے ہو؟ میں زارا کی کوئی چیز ہرگز نہیں خریدوں گا۔ یہ کام بے رحمانہ اور شیطانی ہے۔ ایک اشتہار کے لئے 20 ہزار فلسطینی شہداء کا مذاق اڑایا گیا ہے۔
دوسرے صارف نے لکھا ہے کہ تصویر میں سوٹ کیس دکھانے کا مقصد شاید فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ اور کمرے کے اندر ماڈل کی موجودگی غزہ کے مکانات پر غیر مسلموں کے قبضے کی علامت ہے۔
دوسری جانب بعضی ویب لاگرز نے عرب اور اسلامی ممالک سے اپیل کی ہے کہ زارا کی جانب سے توہین آمیز اور غیرانسانی اشتہار کے بعد کمپنی کی مصنوعات درآمد کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔
عرب صارف نے لکھا ہے کہ اشتہار میں دکھائے جانے والے مناظر کسی چیز کی طرف اشارہ ہے۔ اشتہار کے مناظر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور مسلمانوں کو کفن دینے کی طرف اشارہ ہیں۔ زارا میری آرزو ہے کہ تو ڈیفالٹ کرجائے۔
زارا کی ہیڈ ڈیزائنر وینسا پیرلمن نے اس موقع پر پشیمانی کے بجائے ڈھٹائی کے ساتھ کہا کہ ہمارے کارکن اسرائیل اور فلسطین کی کہانی سے بخوبی واقف ہیں۔ میں اسرائیل کے دفاع سے کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ اسرائیلی آپ کی طرح بچوں کو نفرت اور پتھر مارنے کا درس نہیں دیتے ہیں۔
زارا کی مسلمانوں سے دشمنی نئی نہیں ہے بلکہ اس کا پورا ریکارڈ رکھتی ہے۔ گذشتہ سال صہیونی رہنما بن گویر کی اتنخابی مہم کی میزبانی کا فریضہ زارا کی ایک ذیلی شاخ نے ہی انجام دیا تھا۔ ایتمار بن گویر فلسطینیوں اور عربوں کے خون کے پیاسے ہیں۔ اس اقدام کے بعد عوامی سطح پر زارا کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی۔
علاوہ ازین زارا پر ترک نژاد چینی لوگوں سے جبری مشقت لینے والی کمپنیوں کے ساتھ شریک ہونے کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کینیڈا میں اعلی ادارے کی جانب سے اس حوالے سے زارا کے خلاف تحقیقات کا آغاز بھی کیا گیا۔
زارا کے علاوہ کئی دیگر کمپنیاں غزہ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں جن میں Calvin, Supreme, Lacoste, Dior, Chanel, Valentino, Kalien اور Brooks Brothers شامل ہیں۔
کمپیوٹر پارٹس کی معروف کمپنی انٹل بھی بڑے پیمانے پر اسرائیل کی حمایت کرتی ہے اور اسرائیلی کارکنوں کو تربیت دیتے ہوئے صہیونی حکومت کو مختلف شعبوں میں مدد فراہم کرتی ہے۔
کھیلوں کی دنیا کی معروف کمپنی ایڈیڈاس نے کئی مرتبہ اسرائیل کے ساتھ ہمدردی اور حمایت کا اظہار کیا ہے۔ اس کمپنی نے صہیونی حکومت کو مالی مدد دینے کے علاوہ صہیونی فٹبال ٹیم کی سپانسرشپ بھی لے رکھی ہے۔
کھیلوں کی وردیاں اور ملبوسات تیار کرنے والی کمپنی پوما بھی صہیونی حکومت کی حامی ہے۔ ان کمپنیوں کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کے بعد فلسطین کے حامیوں نے ان کا بائیکاٹ کرتے ہوئے دوسری کمپنیوں سے رجوع کرنا شروع کیا ہے۔