مہر خبررساں ایجنسی نے رائٹرز کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی عرب کا ایک اعلیٰ سطحی وفد رواں ہفتے فلسطین کا دورہ کرنے والا ہے جو رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے ملاقات کرے گا۔
ایک فلسطینی عہدیدار نے ریاض سے وفد کے دورے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ محمود عباس سے ملاقات میں فلسطین میں سعودی عرب کے غیر مقیم سفیر نائف السدیری وفد کی سربراہی کریں گے۔
السدیری کو گزشتہ ہفتے سعودی عرب کا غیر مقیم سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ سعودی وفد کا مغربی کنارے کا دورہ بعض زیر گردش خبروں کے مطابق امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ہونے والے مذاکرات کے بارے میں ہوگا۔
گزشتہ روز غاصب صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اعتراف کیا کہ صیہونی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے تک پہنچنے کے امکانات اب تک بہت کم رہے ہیں۔
نیتن یاہو نے مزید کہا: "اگر ہم آئندہ چند مہینوں میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کسی معاہدے پر نہیں پہنچے تو اس معاہدے پر دستخط کئی برسوں تک موخر ہو جائیں گے۔
انہوں نے صیہونی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے ممکنہ معاہدے کے مواد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: فلسطینیوں کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کا حصہ ہونا چاہیے لیکن انہیں یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو روکیں۔انہوں نے کہا کہ ان کی رائے میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے میں فلسطینیوں کی موجودگی کی وجہ سے صیہونی حکومت کی سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ صیہونی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا اعتراف کرتے ہوئے نیتن یاہو نے مزید کہا: سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اہمیت دئے بغیر مجھے یہ کہنا چاہیے کہ جب میں، بائیڈن اور بن سلمان نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے حصول کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
دوسری جانب صیہونی حکومت کی اتحادی کابینہ میں بنیامین نیتن یاہو کے سخت گیر اتحادیوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ اس حکومت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ممکنہ معاہدے کی صورت میں فلسطینیوں کو رعایت دینے کی ہرگز حمایت نہیں کریں گے۔
عبرانی زبان کے اخبار "ٹائمز آف اسرائیل" نے اطلاع دی ہے کہ صیہونی حکومت کی داخلی سلامتی کے وزیر اور انتہائی دائیں بازو کی جماعت "یہودی عظمت" کے سربراہ ایتمار بن گویر نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت کی طرف سے اگر فلسطینیوں کو رعایتیں دی گئیں تو وہ اور ان کی جماعت، کابینہ چھوڑ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر فلسطینیوں کو رعایتیں دی گئیں تو نہ صرف ہم بلکہ مذہبی صہیونی جماعت بھی کابینہ چھوڑ دے گی۔
بن گوئر نے اس بات پر زور دیا کہ نیتن یاہو صرف ان کی مخالفت کرنے والی "اندرونی اتحاد" پارٹی کے سربراہ بینی گانٹز کے ساتھ مل کر ایسے معاہدے پر دستخط کر سکتے ہیں۔ دریں اثنا، گینٹز نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے پر عمل درآمد کی ضمانت دینے کے لیے نیتن یاہو کے ساتھ اتحاد کو خارج از امکان سمجھا۔
صیہونی حکومت کے وزیر خزانہ اور "مذہبی صیہونیت" پارٹی کے سربراہ بیتسیل سموٹریچ نے اگرچہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی حمایت کی ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کو رعایت دینے کی حمایت نہیں کرتے۔ ؎
اگر "یہودی عظمت" اور "مذہبی صیہونیت" جماعتیں، جو 14 پارلمانی نشستیں رکھتی ہیں، نیتن یاہو کے ساتھ اتحاد چھوڑ دیتی ہیں، تو ان کا اتحاد کنیسٹ کی اکثریت کھو دے گا اور اس کی کابینہ تحلیل ہو جائے گی۔
دوسری طرف صیہونی حکومت کی وزارت خارجہ نے آج ایک پیغام میں سعودی عرب کو اس کی آزادی کی 93ویں سالگرہ پر مبارکباد دیتے ہوئے ریاض کے ساتھ تعاون اور اچھی ہمسائیگی پر زور دیا ہے۔