مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے اقوام متحدہ کے 87 ویں اجلاس میں مختلف ممالک کے سربراہان کی موجودگی میں خطاب کیا۔
ان کے خطاب کا متن ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی سیدنا و نبینا محمد و آلہ الطاہرین و صحبہ المنتجبین
فَبَشِّرْ عِبٰادِ اَلَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ اَلْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ (سورہ زمر17۔18)
جناب صدر!
اقوام متحدہ کے 87 ویں اجلاس کی صدارت کے لئے منتخب ہونے پر آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
گذشتہ سال جب میں اس فورم پر خطاب کیا اس کے بعد دنیا میں تلخ و شیرین واقعات رونما ہوئے ہیں۔
اس عالمی ادارے کی تشکیل کے تقریبا 8 عشروں کے بعد اجلاس ان حالات میں ہورہا ہے کہ دنیا میں ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے۔
جو چیز انسانی معاشرے کے مستقبل کی ضمانت دیتی ہے وہ اعلی اقدار کی طرف توجہ دینا ہے یہی انسان کو کمال اور کرامت کی طرف لے جانا کا باعث ہے۔ اللہ تعالی کے کلام پاک کے سوا کیا چیز انسانیت اور انسانی اقدار کو بیان کرسکتی ہے۔
حاضرین گرامی!
قرآن کریم اللہ تعالی کی کتاب ہے جو انسان کو عقلانیت، معنویت، عدالت اور اخلاق و حق پر عقیدہ رکھنے کی دعوت دیتی ہے۔ قرآن کے مطابق تین چیزیں انسانی سعادت کی ضامن ہیں؛ توحید، عدالت اور انسانی کرامت۔ قرآن نے کونسی بات کی ہے جس سے مستکبرین اور حکمران طبقے کے دلوں میں کینہ ایجاد ہوا ہے؟
قرآن کہتا ہے کہ اے انسان! ظلم اور تفرقہ قبول نہ کرنا۔ اس ہدایت کی روشنی میں کرامت اور عظمت پر مبنی دنیا بنائی جاسکتی ہے۔ قرآن وحدت کا درس دیتا ہے اور روئے زمین پر رہنے والوں کو بہن بھائی کی طرح رہنے کی تلقین کرتا ہے جو ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہوگئے۔ قرآن انسان کو اللہ کا نمائندہ اور مرد اور عورت کے درمیان قدرتی فرق کے باوجود ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ قرآن خاندانی نظام کی حفاظت کرتا ہے اور بچوں کو اللہ کی امانت قرار دیتا ہے۔
وعدے پر عمل کرنا، امانت داری اور سچائی، ہر معاملے میں صداقت، محروم طبقوں کی خدمت، بے انصافی اور فقر و فحشاء سے جنگ قرآن کی تعلیمات میں سے ہیں۔
کیا تاریخ میں پہلی مرتبہ ندائے آسمانی کو خاموش کرنے کے لئے قرآن سوزی کی جارہی ہے؟ کیا نمرود، فرعون اور قارون حضرت ابراہیم، موسی اور عیسی کے خلاف جیت گئے؟
قرآن عقائد کی توہین سے منع کرتا ہے اور حضرت ابراہیم، موسی اور عیسی کے احترام کو حضرت محمد (ص) کا احترام قرار دیتا ہے۔ وَمَا أُوتِیَ مُوسَی وَعِیسَی وَالنَّبِیُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (قرآن کریم سوره آل عمران- آیه ۸۴)
انبیاء کی یہ وحدت بخش، الہام بخش، انسان ساز، تمدن ساز اور معاشرہ ساز تعلیمات انسانی معاشروں کے لئے ہمیشہ رہنما اصول ہیں اور آگ میں جلانے سے کبھی مٹ نہیں سکتی ہیں۔
جناب صدر!
اسلام ستیزی اور ثقافتی یلغار جو قرآن کریم کی توہین اور اسکولوں میں حجاب پر پابندی وغیر کی شکل میں جاری ہے، انسانی ترقی کے لئے مناسب نہیں ہے۔ نفرت افکنی کے پیچھے بڑی سازش چھپی ہوئی ہے۔ آزادی بیان کا نعرہ پرفریب ہے۔ مغرب دنیا کو جنگل اور خود کو باغ تصور کرتا ہے۔ بعض طاقتور عناصر بحران سازی اور دشمن سازی کو راہ حل سمجھتے ہیں۔ اس مسلمان اس ثقافتی یلغار کا شکار ہورہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ادیان الہی کا احترام اقوام متحدہ کے نصب العین کا حصہ ہونا چاہئے اور اقوام متحدہ کو چاہئے اس امر کو یقینی بنائے۔ آج ہم اسلام کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام کے خلاف جنگ دیکھ رہے ہیں۔ انسانی معاشرے کا بنیادی ترین اور اصلی ترین رکن خاندان ہے جو آج خطرے میں ہے۔
آج انسانیت کے خلاف جرائم بے گناہوں کو قتل کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ قدرتی پناہ گاہ خاندان جیسے مراکز بھی اس کے نشانے پر ہیں۔ ایک مرد اور ایک عورت سے تشکیل پانے والا یہ نظام عالمی سطح پر اس کی حفاظت ہونا چاہئے۔ تعلیم و تربیت اور ترقی خاندانی اقدار کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس نظام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہمارا انسانی وظیفہ ہے۔
ہم عالمی رہنماوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے تاریخی وظیفے پر عمل کرتے ہوئے خاندانی نظام کو بچانے میں کردار ادا کریں۔ اقوام متحدہ کو بھی عالمی ادارے کے طور پر اس سلسلے میں کرادا ادا کرنا ہوگا۔
خواتین و حضرات!
ہم تاریخ کے اہم موڑ پر ہیں۔ دنیا میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔ مغربی نظام دنیا کی مشکلات کا حل پیش نہیں کرپارہا ہے۔ قدیمی لیبرل نظام سے صرف سرمایہ دار اور سلطہ گر فائدہ لے رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ دنیا کو امریکہ کے ماتحت کرنے کا منصوبہ شکست کھاچکا ہے۔
ایران کو یہ افتخار حاصل ہے کہ انقلاب اسلامی کے بعد مشرق اور مغرب کی طاقتوں کے چہرے سے نقاب اتارنے میں اہم کردار ادا کیا اور مغربی ایشیا کی دوسری قوموں کے ہمراہ موجودہ عالمی کو ناکام بنانے میں موثر کردار ادا کیا۔ آج مقاومت اور بیداری دنیا میں موجزن ہے اور نئی طاقتیں جنم لے رہی ہیں امید کی جاتی ہے کہ دنیا میں جدید اور عدالت پسند نظام وجود میں آئے۔
عالمی نظام کے لئے موجودہ سلطہ گری پر مبنی نظام کو برکنار کرنا ضروری ہے اور اس کی جگہ علاقائی اتحاد تشکیل دینا چاہئے۔ ایران سیاسی اور اقتصادی تعاون پر زور دیتا ہے تاکہ دنیا میں عدالت پر مبنی نظام قائم ہوجائے۔ آج دنیا کے مختلف ممالک باہمی تعاون کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بعض ممالک علاقائی سطح پر کشیدگی ایجاد کرنے کے درپے ہیں۔ سرد جنگ ایجاد کرکے دنیا کو مختلف بلاکوں میں تقسیم کرنا اقوام کی امنیت اور فلاح بہبود کے خلاف ہے۔
ایران سمجھتا ہے کہ دنیا میں مشرقی اور مغربی بلاکوں کا وجود نہیں ہونا چاہئے۔ تجارتی راہداریوں میں بدامنی پھیلانا اور آزاد ممالک کو معاشی ترقی سے روکنا اور ایشیا اور یورپ میں پراکسی وار اسی منحوس سلسلے کی کڑی ہے۔ محضکہ بات یہ ہے کہ یہ سب جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے۔ دنیا اس جمہوریت کا مزہ چکھ چکی ہے جس میں بغاوت اور جنگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
لیبرل نظام کی سرنوشت واضح ہوچکی ہے۔ دنیا پر رائج ہونے کا خواب دیکھنے والا یہ نظام خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
خواتین و حضرات!
جس وقت بعض طاقتیں دنیا کو جنگ کی طرف لے جارہی ہیں، ایران نے ہمسایگی اور تعاون کا نظریہ پیش کیا ہے۔ ہماری پالیسی دوستی اور خیرخواہی پر مبنی ہے جس کے تحت خطے میں اقتصادی تعاون کا وسیع جال بچھایا جارہا ہے۔ ہماری طرف بڑھنے والے دوستی کے ہاتھ کو ہاتھ دیں گے۔ بحران اور کشیدگی کے دو عشرے گزرنے کے بعد ایران، عراق، یمن، لبنان، شام اور فلسطین اور افغانستان میں مقاومت آج ثمر دے رہی ہے۔ ایران نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مفید تعلقات کی فضا قائم کی ہے۔ شمال اور جنوب کی دنیا کو ملانے کے لئے تجارتی گزرگاہ بنائی ہے جس سے تمام اقوام کے تجارتی مفادات کو تحفظ ملے گا۔
سیکورٹی کے حوالے سے ہماری پالیسی یہ ہے کہ خطے میں امن کے قیام کے لئے بیرونی مداخلت کا سلسلہ اور علاقائی ممالک کے درمیان باہمی تعاون ایجاد ہونا چاہئے۔ قفقاز کے خطے سے لے کر خلیج فارس تک بیرونی طاقتوں کی موجودگی راہ حل نہیں بلکہ مشکل ساز ہے۔ ہم ہمسایہ ممالک کی سیکورٹی کو اپنی سیکورٹی سمجھتے ہیں۔
مغرب ایشیا میں استعمار کی تاریخ طویل ہے جس کی وجہ سے ترقی کے مواقع ضائع ہوگئے۔ آج رہبر معظم کی رہنمائی میں مقاومت کا نظریہ پیش کیا گیا جس سے خطے میں ناجائز قبضے اور دہشت گردی کو شکست اور ترقی کی فرصت مل گئی ہے۔
ایران کی طاقت امنیت ایجاد کرنے والی طاقت ہے جس نے سلطہ گر طاقتوں کی پیش کردہ جنگ اور قبضے پر مبنی سوچ کو ختم کرکے نئے افق ایجاد کئے ہیں۔ ایران خطے میں اسلامی وحدت اور اجتماعی ترقی کی ترویج چاہتا ہے۔ اجتماعی ترقی سے پائدار امن نصیب ہوگا۔ ایران سرمایہ کاری کے لئے ذرخیز ملک ہے۔
جناب صدر!
گذشتہ سال ایرانی قوم کی کامیابی کا سال تھا۔ بعض طاقتوں نے ایرانی عوام کی طاقت کو نظرانداز کرتے ہوئے غلط اندازے لگائے تھے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے اب تک ایران کے خلاف مختلف حربے استعمال کئے گئے۔ گذشتہ 45 سالوں سے یہ حربے ناکام اور ایرانی قوم کامیاب ہورہی ہے۔
آج انقلاب اسلامی کے نظام کو عوام کی مضبوط حمایت حاصل ہے۔ گذشتہ سال ایرانی عوام کے خلاف بہت بڑی نفسیاتی جنگ شروع کی گئی۔ دنیا میں ماوں کی سب سے بڑی جیل کے طور پر امریکہ کیسے حقوق نسواں کا ہمدرد ہوسکتا ہے؟ ایران کے بارے میں غلط اطلاعات پر مبنی خبریں دنیا تک پہنچائی گئیں۔ اہم واقعات کو پوری دنیا میں سینسر کیا جاتا ہے۔
کیا آپ نے ایران میں عوام پر کیمیائی حملوں کےبارے میں سنا ہے؟ یہ کیمیائی اسلحے یورپی ممالک نے صدام کو دئے تھے۔
کیا 35 سالوں سے ہسپتالوں میں زیرعلاج ان بیماروں کی تصاویر دیکھی ہیں؟
کیا امریکہ اور مغربی ممالک کی پابندی کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا بچوں کی تصاویر ملاحظہ کی ہیں؟
کیا ایرانی عوام کا صبر اور حوصلہ دیکھا ہے؟
آج عراقی کردستان میں شہید قاسم سلیمانی کی کوششوں کی بدولت امن قائم ہے ورنہ داعش کی لگائی گئی آگ جل کر راکھ ہوجاتا۔ کیا ذرائع ابلاغ اور ہالی ووڈ ان قربانیوں کے بارے میں آپ کو کچھ بتارہے ہیں؟
شہید قاسم سلیمانی کی تشییع جنازہ میں 25 ملیون افراد کی شرکت کو سینسر کیا گیا۔ ان کی شہادت داعش کے لئے انعام تھی جس کو امریکی حکومت نے بنائی ہے۔ اس کمانڈر کی قدردانی کے بجائے وحشیانہ طریقے سے شہید کیا گیا۔ مظلوم کا خون رائیگان نہیں جائے گا بلکہ ظالم کی دامن پکڑ لے گا۔