مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛
حالیہ چند سالوں کے دوران میٹا جیسے سماجی رابطے کے ذرائع کی مقبولیت کے بعد بعض حکومتوں نے ان اداروں کے اندر اثر ورسوخ پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ اس کے ذریعے اپنے مفادات کے حصول کو یقینی بنانے کے علاوہ سیاسی اور نظریاتی مخالفین کو منظر عام سے ہٹادیا جائے۔ اس کی ایک مثال ٹوئیٹر کے لئے کام کرنے والے لبنانی نژاد امریکی شہری احمد ابوعمو ہیں جن کو سعودی ولی عہد کے قریبی بدر العساکر کے لئے سعودی شاہی خاندان کے مخالفین کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے کے جرم میں کیلی فورنیا کی عدالت نے سزا سنادی۔ یہ پالیسی صرف عرب ممالک کی ہی نہیں بلکہ واشنگٹن کے اتحادی ممالک بھی اس میں شریک ہیں۔
الجزیرہ چینل نے اپنے پروگرام میں اسرائیل کے داخلی سلامتی کے ادارے شین بٹ کی سائبر سیکورٹی کے سابق افسر کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ فیس بک اور صہیونی ادارے کے درمیان اسرائیل اور صہیونیت مخالف مواد کو فیس بک کے صفحے سے مٹانے کے لئے باہمی تعاون کا سلسلہ جاری ہے۔ اس تحریر میں اسرائیلی حکام کی جانب سے سوشل میڈیا کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے اور ان کی جاسوسی کے لئے استعمال کرنے کے حوالے سے کچھ حقایق پیش کئے جائیں گے۔
الجزیرہ کے پروگرام میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور فیس بک کے سابق عہدیداروں نے صہیونی سیکورٹی اداروں کی جانب سے فلسطین اور عرب امور سے متعلق مواد کو ہدف قرار دینے کے بارے میں انکشافات کئے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن اور محقق دبورا براؤن نے میٹا کی جانب سے انسانی حقوق کو نظرانداز کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مختلف کیسز میں میٹا کی دوغلی پالیسی قابل مذمت ہے۔ مثال کے طور پر یوکرائن جنگ کے بعد ادارے نے پوری دنیا میں روس مخالف مواد کی تشہیر کی اجازت دے دی جبکہ فلسطین اور یمن کے مظلوم عوام کے حق میں بلند ہونے والی آوازوں کو اپنے پلیٹ فارم پر منتشر ہونے سے روک دیا۔
انسانی حقوق کے امریکی فعال کارکن جلین یورک نے اعتراف کیا کہ صہیونی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے سماجی رابطے کے ذرائع میں عبرانی کی نسبت عربی مواد کو زیادہ سینسر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈیجیٹل حقوق کے ماہر مارلینا وینسک نے بھی کہا کہ عربی اور فلسطینی مواد کو محدود مواقع دیئے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے کافی ثبوت موجود ہیں کہ عبرانی مواد سے زیادہ عربی مواد کو سوشل میڈیا سے محدود یا ختم کیا جاتا ہے۔
فلسطینی اور عربی مطالب کو سینسر کرنے کا سلسلہ 2016 کے بعد تیز ہوا۔ فیس بک کے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے امور کے سابق سربراہ اشرف زیتون نے انکشاف کیا کہ 2016 کے اواخر میں تل ابیب نے سوشل میڈیا کی سخت نگرانی شروع کی اور ان کے خلاف سنگین جرمانے کا سلسلہ جاری کیا چنانچہ صہیونی حکومت کے سائبر شعبے کے سابق سربراہ ایرک باربینگ نے بھی اعتراف کیا کہ سوشل میڈیا کے بارے میں صہیونیوں کی مخصوص پالیسی موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی ادارے شین بٹ نے میٹا سے خصوصی طور پر مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینی شہداء سے متعلق مطالب، پیش ٹیگ حتی لائیک کو بھی اپنے صفحے سے ختم کریں۔ فیس بک اور دیگر سماجی رابطے کے اداروں نے اپنے مفادات کی حفاظت اور صہیونیوں کی جانب سے کاروائی کے پیش نظر ان مطالبات کو قبول کرلیا ہے۔
ایرک کے مطابق میٹا اسرائیلی فوج کے مختلف شعبوں میں فعال ماہرین سے خدمات لیتی ہے۔
تحقیقات کے مطابق 2016 سے 2020 تک کے عرصے میں شین بٹ اور میٹا کے درمیان فلسطین کی حمایت میں مطالب کو محدود یا ختم کرنے کے لئے تعاون کا سلسلہ مزید شدید ہوا ہے۔ مئی میں ہونے والے مظاہروں کے دوران سائبر شعبوں کی طرف سے میٹا کو 4500 درخواستیں بھیجی گئی ہیں۔
2021 میں میٹا نے اعلان کیا تھا کہ مقاومت کے حامی مواد کو محدود کرنے کی درخواستوں میں 8 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ گذشتہ سال صرف ایک صہیونی سائبری شعبے کی جانب سے 5 ہزار درخواستیں موصول ہوگئی تھیں جن میں اسرائیل مخالف صفحات کو محدود کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور ان مطالبات کا مثبت جواب دیا گیا تھا۔
الجزیرہ ٹی وی نے اس حوالے سے مزید تحقیقات کی غرض سے فیس بک پر دو پیجز بنائے جن میں سے ایک عربی اور دوسرا عبرانی زبان میں تھا۔ عربی زبان کے پیج کا نام "لمہ فلسطینیہ" جبکہ عبرانی پیج کا نام "ارض الاجداد" رکھا گیا۔ 26 جولائی 2023 کو دونوں پیجز پر تصاویر اور مواد منتشر کرنا شروع کیا۔ فلسطین سے متعلق پیج پر فلسطینی شہداء کی تصاویر اور خبریں دی گئیں۔
چند دنوں کے اندر پیج کو مکمل طور پر بند کرنے کا انتباہ دینا شروع ہوا جبکہ عبرانی پیج پر بھی تصاویر اور دیگر مواد دینے کے باوجود اس حوالے سے کوئی الٹی میٹم یا انتباہ موصول نہیں ہوا۔
میٹا کی نگران کونسل کے رکن جولی آوانو نے فلسطینی اور اسرائیلی مطالب کے بارے میں دوغلی پالیسی اور افراط کا اعتراف کیا۔ مثال کے طور مصر سے تعلق رکھنے والے فیس بک کے صارف نے حماس کے عسکری ونگ کے بارے میں خبر متشر کردی جس پر میٹا نے ایکشن لیتے ہوئے پوسٹ کو ڈیلیٹ کردیا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر موارد میں فیس بک پر صہیونی لابی کے دباو کا ثبوت مل جاتا ہے۔
ادارے کے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے شعبے کے سابق سربراہ نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلیوں کا دباو اس حد تک محدود نہیں ہے بلکہ تل ابیب سے وابستہ لابیوں نے فیس بک کے الگورتھیم پر تسلط حاصل کرکے اس کو اپنے مفادات کے تحت استعمال کرنے کی کوشش کی۔ علاوہ ازین امریکہ میں مقیم یہودیوں نے خصوصی اپلیکیشن بناکر اپنے صارفین سے اپیل کی ہے کہ اسرائیل مخالف مواد کے خلاف فیس بک کو درخواست بھیج دیں۔
محققین کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ میٹا میں مختلف عہدوں پر کام کرنے والے اسرائیلی شہریت رکھتے ہیں۔ صہیونی حکومت اور فوج کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ان میں سے چند معروف افراد میں اینسٹاگرام کے سی ای او ایڈم موسری، جورڈنا کتلر، فیس بک کے مالی شعبے کے سربراہ دیوڈ فشر اور امی پالمور شامل ہیں۔ ان افراد کا ہدف فلسطین کی حمایت میں نشر ہونے والے مواد اور مطالب کو محدود کرنا ہے۔ میٹا نے اسرائیلی کمپنیوں کو خریدنے کے بعد تل ابیب میں بڑا مرکزی دفتر بنایا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس سے وابستہ فورسز بھی فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرنے کے بجائے میٹا کا ساتھ دے رہی ہیں اور صہیونیوں کے ہاتھ میں ہاتھ ملاتے ہوئے فلسطینی عوام کی آواز دبارہی ہیں۔ ان خبروں کے منتشر ہونے سے غرب اردن اور غزہ میں حماس اور اسلامی جہاد کے مقابلے میں فلسطینی اتھارٹی کی پوزیشن مزید کمزور پڑجائے گی۔
عالمی سطح پر سوشل میڈیا کے اداروں اور صہیونی حکومت کے درمیان تعاون سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ آزادی بیان اور انسانی حقوق کا نعرہ صرف اقوام اور حکومتوں کو مغربی تسلط میں رکھنے کے لئے لگایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تل ابیب کے اشاروں سے فلسطین کے حامی صارفین کے پوسٹوں پر سنسر شب کا نشتر چلایا جاتا ہے۔