مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے پیر گیارہ ستمبر کی صبح سیستان و بلوچستان اور جنوبی خراسان صوبوں کے ہزاروں لوگوں سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے ان علاقوں کے مومن عوام اور شیعہ سنی علماء کی جانب سے ملک کی خدمات کو سراہتے ہوئے بڑی عالمی تبدیلیوں کے دوران اقوام اور مختلف ملکوں کے حکام کے ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انھوں نے ایران میں بحران پیدا کرنے والے امور کو ہوا دینے کی دشمن کی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قومی اتحاد کو بگاڑنا اور قومی سلامتی کو کمزور بنانا، ان کے دو بنیادی اور اہم اہداف ہیں لیکن ہم بھی دشمن کا پوری توجہ سے مقابلہ کر رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اگر قوم اور حکام کی نگرانی، بیداری اور ہوشیاری قائم رہے تو پیارے ایران کے دشمن کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اٹھارہویں صدی میں برصغیر ہند سمیت ایشیا کے اہم علاقوں پر برطانوی سامراج کے قبضے اور پہلی جنگ عظیم کے بعد مغربی ایشیا کے بہت سے علاقوں پر مغربی ممالک کے قبضے کو، ان علاقوں کی اقوام اور حکومتوں کی غفلت کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ مذکورہ علاقوں کی اقوام نے بعد میں سامراجیوں کے قبضے سے آزادی کے لیے بہت زیادہ تکلیفیں اٹھائيں۔
انھوں نے موجودہ دنیا کو بھی تبدیلی کے دہانے پر اور بعض زاویوں سے تبدیل ہوتی ہوئي دنیا بتایا اور سامراجی طاقتوں کے کمزور ہونے اور نئي علاقائي اور عالمی طاقتوں کے ابھر کر سامنے آنے کو ان بڑے تغیرات کی دو اہم خصوصیات قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بعض مغربی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے، معاشی میدان سمیت اکثر میدانوں میں امریکا کی طاقت کے انڈیکیٹرز کو رو بہ زوال بتایا اور کہا کہ حکومتوں کو تبدیل کرنے کے سلسلے میں بھی امریکا کی طاقت بہت کم ہو گئی ہے۔
انھوں نے اسی سلسلے میں کہا کہ کبھی امریکا، اپنے ایک ایجنٹ کو پیسوں سے بھرے بریف کیس کے ساتھ ایران بھیج کر 19 اگست کی بغاوت کرا دیتا تھا لیکن آج کسی بھی ملک میں اس کے پاس ایسی طاقت دکھانے کا دم خم نہیں ہے اور اسی وجہ سے اس نے مہنگي ہائبرڈ جنگ کا رخ کیا ہے لیکن وہ اس میں بھی ناکام ہو گيا ہے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے شام میں ناکامی اور افغانستان سے ذلت آمیز طریقے سے فرار کو امریکا کی طاقت کے زوال کے دو واضح نمونے بتایا اور کہا کہ دیگر سامراجی ممالک بھی اسی زوال کا شکار ہو چکے ہیں چنانچہ ان دنوں افریقا کے مختلف ممالک میں اس بر اعظم پر ماضی میں سامراجی قبضہ کرنے والے فرانس کے خلاف تحریکیں چل رہی ہیں اور عوام ان تحریکوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔
انھوں نے اسی کے ساتھ کہا کہ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ دشمن کمزور ہو رہا ہے تو اس کا مطلب مکر و فریب، سازش رچنے اور چوٹ پہنچانے میں اس کی ناتوانی نہیں ہے اس لیے ہمیں یعنی عوام اور حکام کو پوری طرح سے بیدار اور چوکنا رہنا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ امریکا کی سازشیں صرف ایران تک محدود نہیں ہیں، آج وہ خطے میں عراق، شام، لبنان، یمن، افغانستان، یہاں تک کہ خلیج فارس کے ساحلی ممالک کے خلاف بھی سازشیں کر رہا ہے جو اس کے پرانے اور روایتی دوست ہیں۔
انھوں نے امریکا کی سازش پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس جو اطلاعات ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی حکومت نے بحران پیدا کرنے والے گروہ کے نام سے ایک ٹیم تیار کی ہے جس کا کام ایران سمیت دیگر ممالک میں بحران کا سبب بننے والے ایشوز تلاش کرنا اور انھیں ہوا دینا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان کی نظر میں قومی و مسلکی اختلافات اور خواتین کا مسئلہ ایسے امور ہیں جن سے ایران میں بحران پیدا کیا جا سکتا ہے اور وہ انھیں ہوا دے کر ہمارے وطن عزیز کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران میں شام اور یمن جیسی صورتحال پیدا کرنے پر مبنی بعض امریکیوں کے واشگاف بیانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یقینی طور پر وہ ایسا نہیں کر پائيں گے بشرطیکہ ہم چوکنا اور بیدار رہیں، غلط راستے پر نہ چلیں، حق اور باطل کے فرق کو اچھی طرح سمجھیں، دشمن کے طریقوں کو پہچانیں، اپنی کسی بھی بات، قدم اور اقدام سے دشمن کی مدد نہ کریں اور خواب غفلت کا شکار نہ ہوں کیونکہ نیند کی حالت میں ایک بچہ بھی آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، مسلح اور حملے کے لیے تیار دشمن کی تو بات ہی الگ ہے۔
انھوں نے ایرانی قوم کی جانب سے امام خمینی کی ہدایات کی پیروی کے سبب چالیس پینتالیس سال سے دشمنوں کی ناکامی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امام خمینی کے موقف اور ان کی ہدایات کو، ایرانی قوم کی کامیابی کا سفر جاری رہنے کے لیے لازمی قرار دیا اور کہا کہ دشمن نے ایرانیوں کے قومی اتحاد اور قومی سلامتی جیسے دو بنیادی امور کو نشانہ بنا رکھا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ بحمد اللہ ہماری قوم بیدار ہے اور میں قوم کی اس بیداری کی جانب سے بہت پرامید ہوں اور یہ صرف نعرہ اور رجزخوانی نہیں بلکہ پچھلے چالیس پینتالیس برس کے تجربات اور مشاہدات کا نتیجہ اور جوانوں کی توانائي، محبت، وفاداری، اخلاص اور اس سال کے اربعین سمیت عوام کی زبردست موجودگي جیسی نمایاں اور امید آفریں علامتوں کے سبب ہے۔
رہبر انقلاب نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں اربعین کے پروگرام میں ایرانی قوم کی زبردست شرکت کی طرف اشارہ کیا اور اپنے پورے وجود سے اربعین کے دو کروڑ بيس لاکھ سے زائد زائرین کی خاطر تواضع اور مہمان نوازی کرنے پر عراقی قوم کا دل سے شکریہ ادا کیا اور اسی طرح اس عظیم پروگرام کی سیکورٹی کو یقینی بنانے پر عراق کی حکومت، حکام، پولیس فورس اور خاص طور پر عوامی رضا کار فورس الحشد الشعبی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی پولیس فورس کا بھی دل کی گہرائي سے شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے سرحدوں سے لوگوں کی رفت و آمد کے سلسلے میں واقعی رات دن بہترین کام کیا اور ہمیں مختلف شعبوں میں ان فداکار اور اچھے نوجوان پولیس اہلکاروں کی قدردانی کرنی چاہیے۔