مہر خبررساں ایجنسی نے شینہوا کے حوالے سے بتایا ہے کہ تیونس کے صدر قیس سعید نے دنیا بھر میں ملک کے نئے سفیروں سے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ (غاصب صیہونی رجیم کے ساتھ) تعلقات کو معمول پر لانے کا لفظ ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔
انہوں نے مزید کہا: اگرچہ فلسطین کے پاس ایک سفیر موجود ہے لیکن ہمیں فلسطینی عوام کے حقوق کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ مسئلہ فلسطین ہماری امت کا بنیادی اور مرکزی مسئلہ ہے۔ جو بھی تعلقات کو معمول پر لانے کی بات کرتا ہے مجھے اسے یہ بتانا ہے کہ یہ لفظ میری ڈکشنری میب بالکل بھی موجود نہیں۔
صدر سعید نے مزید کہا: سرزمین فلسطین کی اپنی قوم میں واپسی ایک فطری مسئلہ ہے۔ فلسطینی عوام کو اپنے تمام حقوق حاصل کرنے چاہئیں جن میں القدس کے مرکز میں فلسطینی ریاست کی تشکیل بھی شامل ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں لیبیا کی وزیر خارجہ نجلاء المنقوش اور ان کے صہیونی ہم منصب ایلی کوہن کے درمیان اٹلی میں ہونے والی باضابطہ ملاقات کے اعلان کے بعد اس ملک کے سیاسی اور عوامی طبقوں میں احتجاج اور مخالفت کی لہر دوڑ گئی ہے۔
جب کہ لیبیا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے اعلان کیا کہ یہ ملاقات غیر رسمی اور حادثاتی تھی۔ صیہونی روزنامہ یدیعوت احرونوت اخبار نے اطلاع دی ہے کہ سیاسی ذرائع کے بیانات کے مطابق یہ ملاقات حادثاتی نہیں تھی بلکہ لیبیا کے سرکردہ حکام کی کوآرڈینیشن کے مطابق پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کے تحت ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ صیہونی حکومت کے وزیر خارجہ کی گزشتہ ہفتے اٹلی کے دارالحکومت روم میں اپنے لیبیائی ہم منصب سے ملاقات کے انکشاف کے بعد لیبیا کے مختلف شہروں جن میں زاویہ اور تاجورہ کے بندرگاہی شہر بھی شامل تھے، حکومت مخالف مظاہروں کے مرکز بن گئے تھے۔
سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور مشتعل مظاہرین نے لیبیا کے وزیر خارجہ کی صہیونی ہم منصب سے ملاقات کی مذمت کی اور نجلاء المنقوش کو وزیر خارجہ کے عہدے سے ہٹانے اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کرتے ہوئے فلسطین اور مقبوضہ بیت المقدس کی حمایت میں مظاہرین نے اتوار کو صیہونی حکومت کے پرچم کو بطور احتجاج نذر آتش کیا۔