مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، منفردترین مجلس تھی جس میں پہلی مرتبہ شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ خیابان جمہوری اسلامی پر واقع مسجد ہدایت میں رات کے نو بجے مجلس ہوئی۔ اجتماع کے نزدیک ہونے پر بھی کوئی آواز یا شور سنائی نہیں دے رہا تھا۔ دو جوان لڑکیاں میرے ساتھ عزاخانے میں داخل ہوگئیں۔ ان کے قیافے دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا کہ جوانی کے عالم میں امام حسین علیہ السلام کا عشق دلوں میں زندہ رکھا ہوا ہے۔
مجلس پر عجیب سکوت طاری تھا۔ شرکاء کی تعداد 300 کے قریب تھی۔ ایک شخص منبر پر بیٹھ کر وعظ و نصیحت کررہا تھا۔ مخصوص مواقع پر اپنے ہاتھوں کو بلند کرتا تھا کبھی نیچے کرتا تھا۔
خطیب کے پیچھے حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کا نام مبارک لکھا ہوا تھا۔ بینر کے نچلے حصے پر لکھا تھا: انجمن محبان سید الشھداء، تہران، سال تاسیس 1401
جب بینر پر سماعت سے محروم افراد کی انجمن کا نام دیکھا تو متوجہ ہوا کہ اتنی خاموشی کا اصل راز کیا ہے۔
کسی مناسب جگہ بیٹھ گیا تاکہ اجتماع کا اچھی طرح کوریج دوں۔ سماعت سے محروم افراد کے درمیان مصائب پڑھنا بہت مشکل کام ہے۔ شرکاء میں سے جس کسی کے چہرے پر نظر کروں، خطیب کی طرف دیکھنے اور فضائل امام حسین اور حضرت عباس سننے میں مگن تھا۔
خطیب لبوں کو حرکت دیتا تھا بعض اوقات ہاتھوں کے اشارے سے کچھ توضیح دینے کی کوشش کرتا تھا۔ عورتوں اور مردوں کے لئے الگ الگ جگہ مختص تھی لیکن درمیان میں کوئی پردہ نہیں تھا کیونکہ سب کی نگاہیں خطیب پر مرکوز تھیں۔
تقریر کے درمیان کھڑی ہوکر اجتماع کی فلم برداری کرنا چاہا تو پیچھے سے ایک خاتون نے میری چادر کھینچنا شروع کیا۔ اشاروں کی زبان میں بتارہی تھی کہ میرے سامنے سے ہٹ جائیں تاکہ خطیب کو اچھی طرح دیکھ سکوں۔ واضح تھا کہ اگر آنکھوں سے خطیب کو نہ دیکھ سکے تو تقریر کا سمجھنا ممکن نہ تھا۔
اسی دوران ایک آواز بلند ہوئی جس کو سمجھنا ممکن نہ تھا۔ موبائل سے نگاہیں ہٹاکر دوسری طرف دیکھنا شروع کیا تاکہ پتہ چلے کہ کیا ہورہا ہے۔ دیکھا کہ سب مرد اور عورتیں اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر حضرت عباس علیہ السلام کا نام تکرار کررہے ہیں۔ ہاتھوں کو ایک دوسرے کے ساتھ گرہ لگا ہوا تھا۔ اب احساس ہوا کہ دعائے جوشن کبیر اور دعائے مشلول میں مناجات کے دوران یا سامع الاصوات اس لئے پڑھتے ہیں کہ خدا سب کی زبان سمجھتا ہے۔
مجمع پر ایک خاص قسم کی روحانی فضا طاری تھی۔ اب تک مصائب اور روضہ خوانی کی بہت ساری محفلوں میں شرکت کی تھی لیکن یہ منظر سب سے منفرد تھا۔
میں بھی مجمع کے ساتھ ہم زبان ہوکر دل میں مولا کا نام دہرا رہی تھی۔ گویا میرے دل کی زبان منہ کی زبان سے زیادہ کام دے رہی تھی۔ نوحہ خوان آکر فقط نوحے کا پہلا مصرعہ پڑھتا ہے: اے اہل حرم میر و علمدار نیامد، علمدار نیامد علمدار نیامد، سقای حسین سید و سالار نیامد علمدار نیامد۔
اس انجمن کے بارے میں مزید اطلاعات حاصل کرنے کے لئے مجلس کے خطیب کے قریب گئی۔ حجت الاسلام سید مہدی سجاد ادارہ مشکات میں سماعت سے محروم افراد کے شعبے کے مبلغ ہیں۔ واقعہ عاشورا بیان کرتے ہوئے درمیان حضرت امام حسین علیہ السلام کا نام بھی بلند آواز میں ادا کرتے ہیں۔
حجت الاسلام سید مہدی سجاد کے مطابق یہ ادارہ آیت اللہ العظمی وحید خراسانی کے دفتر کے ماتحت ہے اور تقریبا دس سالوں سے سماعت سے محروم افراد کے لئے عزاداری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب حوزہ علمیہ میں زیرتعلیم تھا تو سماعت سے محروم افراد کو تبلیغ کا طریقہ سیکھا اور اشاروں کی زبان پر بھی کافی عبور حاصل کی۔ سند حاصل کرنے کے بعد سماعت سے محروم افراد کے لئے تبلیغ شروع کی۔
انہوں نے کہا کہ سماعت سے محروم افراد سے رابطے کے لئے اس زبان کو سیکھنا لازمی ہے۔ بعض افراد اس زبان کو سیکھنے سے منع کرتے ہیں اور سماعت سے محروم افراد کو بھی عام افراد کی طرح تعلیم حاصل کرنے کے لئے سکولوں میں بھیجتے ہیں۔ یہ ان افراد کے ساتھ زیادتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ افراد شکوہ کرتے ہیں کہ ان کی حق تلفی کی گئی ہے۔ ہم تبلیغ کے دوران اس زبان سے استفادہ کرتے ہیں اور مختلف مواقع پر مجالس و محافل برپا کرتے ہیں۔
سید مہدی سجاد نے کہا کہ سماعت سے محروم افراد کو مصائب بیان کرنا بہت مشکل کام ہے۔ عام افراد کو الفاظ اور لہجے کے ذریعے مصائب بیان کرسکتے ہیں لیکن سماعت سے محروم افراد کے سامنے کربلا کے دردناک واقعے کی منظرکشی کرنے کے لئے اشاروں اور لبوں کے ذریعے کام لینا پڑتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں سید مہدی نے کہا کہ اگرچہ ہمارے خاندان میں کوئی معذور فرد نہیں ہے لیکن جب میں نے دیکھا کہ سماعت سے محروم افراد کے لئے تبلیغ کی ضرورت ہے تو ان کی زبان سیکھ لی۔ میں نے سوچا تھا کہ ان افراد کی تعداد کم ہوگی لیکن جب مختلف شہروں اور اداروں میں جاکر دیکھا تو ان بڑی تعداد نظر آئی۔ دینی تعلیمات کے سلسلے میں ان کی کم علمی کو دیکھتے ہوئے اپنا وظیفہ سمجھا اور ان معذور افراد کی مدد کے لئے عملی میدان میں داخل ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی شریک حیات بھی اس کام میں ان کے ساتھ شریک ہیں۔ انہوں نے بھی یہ زبان سیکھ لی ہے۔ معذور خواتین کے لئے احکام شرعی بیان کرنا ان کی اہم ذمہ داری ہے۔ ہر روز کئی گھنٹے وقت نکال کر شرعی سوالات کا جواب نکالتی ہے۔ میاں بیوی مل کر فعالیت کرنے کی وجہ سے معذور افراد کا اطمینان مزید بڑھ گیا ہے۔ اب مختلف موضوعات پر مشورے اور سوالات آسودہ خاطر ہوکر پوچھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سماعت سے معذور افراد کو قرآنی معارف سکھانا بہت مشکل کام ہے۔ قرآنی مطالب بیان کرنے کے لئے مخصوص ظرافت کی ضرورت ہے جوکہ معذور افراد سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان مطالب کو سمجھانے میں ذرا کمی بیشی ہوجائے تو شرعی لحاظ سے مشکل ہوتی ہے لہذا بہت احتیاط کرنا پڑتا ہے۔
ادارے کے بانی علی رضا قلی زادہ سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ خود بہت سماعت کمزور ہونے کی وجہ سے اونچا سنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معذور افراد کے لئے اس قسم کا پروگرام رکھنا ان کی دلی تمنا تھی۔ عام افراد کے لئے ہونے والے پروگراموں میں معذور افراد بھی شرکت کرتے تھے تو احساس ہوا کہ ان کے لئے مخصوص کوئی پروگرام ہونا چاہئے۔ ادارے کی تاسیس کا اصل ہدف معذور افراد کو اسلام سے زیادہ سے زیادہ آگاہ کرنا ہے۔