مہر خبررساں ایجنسی نے النشرہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ لبنان کی حزب اللہ کے ڈپٹی سکریٹری جنرل نعیم قاسم نے اپنے ایک خطاب میں اعلان کیا ہے کہ 33 روزہ جنگ میں فتح نے نہ صرف ایک مضبوط لبنان کی تشکیل کی بلکہ اس نے خطے میں مزاحمت کی طاقت کے توازن کو بھی جنم دیا۔
انہوں نے لبنان میں حزب اللہ کی اعلی پوزیشن اور مزاحمت کی وسعت پر اس کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ گذشتہ چند سالوں میں رونما ہونے والے واقعات کا جائزہ لینے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کی مستحکم پوزیشن اور مزاحمتی سج دھج میں اضافے سے فلسطین، شام، عراق اور یمن میں مزاحمتی جذبے اور ثقافت کو فروغ حاصل ہوا ہے۔
قاسم نعیم نے مزید کہا کہ مزاحمت عظیم کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اگر 33 روزہ جنگ میں فتح نہ ہوتی تو اسرائیل 17 سال تک جارحیت سے باز نہ آتا۔
اسرائیل کی جانب سے لبنان پر حملہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل جانتا ہے کہ اگر کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ جائے تو بھی حزب اللہ اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گی۔ لبنان کی حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے کہا کہ غاصب اسرائیل ہم سے روبرو نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ حزب اللہ کا جواب اس کے لئے سنگین نتائج رکھتا ہے۔ اس لیے وہ لبنان پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہم نے کسی بھی جارحیت کا جواب پہلے سے تیار کر رکھا ہے۔
قاسم نعیم نے 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی فتح کو سمندری سرحدوں کی حد بندی، لبنان کے پانی اور تیل کے تحفظ اور تیل کی کھدائی کے آغاز کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی دشمن کو وارننگ دی گئی تھی کہ ہم یا تو اپنا حق واپس لیں گے یا پھر جنگ کریں گے۔ لہذا اسرائیل کو ہماری درخواست ماننا پڑی اور اس وارننگ کے نتیجے میں، برسوں کے بے نتیجہ مذاکرات کے بعد، لبنان اپنا حق واپس لینے میں کامیاب ہوا۔