مہر خبررساں ایجنسی نے نیوز ویک کے حوالے سے خبر دی ہے کہ روس کی سکیورٹی کونسل کے نائب دمتری میدودیف نے امریکی صدر جو بائیڈن کے بڑھاپے اور افغانستان میں اس ملک کے اقدامات کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ہے کہ بائیڈن یوکرین کی حمایت کرتے ہوئے ایٹمی جنگ کے خواہاں ہیں۔
میدودیف امریکہ میں باراک اوباما کے دور صدارت میں 2008 سے 2012 کے درمیان روس کے صدر رہے اور ان کی ملاقات بائیڈن سے ہوئی جو اس وقت اوباما کے نائب صدر تھے۔ بائیڈن پر تازہ ترین حملے میں روس کے سابق صدر نے اپنے سابقہ بیانات کو دہرایا۔ 2021 میں جنیوا میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ملاقات میں بائیڈن کے بیان کو یاد کرتے ہوئے میدویدیف نے امریکی صدر کو "احمق اور اونگھنے والا بائیڈن" قرار دیا۔
میدودیف نے اپنے ٹیلیگرام چینل پر یہ بھی لکھا کہ بائیڈن "شرمناک طریقے سے افغانستان سے بھاگ گیا اور اس شرم کو چھپانے کے لیے یورپی معیشت کو تباہ کر دیا۔" اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس جملے سے میدودیف کا کیا مطلب تھا، لیکن اسے واضح طور پر یوکرین کو "سینکڑوں ٹن ہتھیار" فراہم کرنے پر تنقید سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ میدودیف نے لکھا کہ کیف سے نیٹو کی رکنیت کے وعدے کے علاوہ، اپنے تمام وسائل ختم کرنے کے بعد، بائیڈن نے اب کلسٹر بم کا وعدہ کیا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے، تو "اس کا مطلب تیسری عالمی ایٹمی جنگ کا آغاز ہوگا۔
بائیڈن کے یوکرائن کو کلسٹر بم فراہم کرنے کے فیصلے کو انسانی حقوق کی تنظیموں، کانگریس کے متعدد ڈیموکریٹس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے یورپی اتحادیوں نے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیونکہ یہ ہتھیارعام شہریوں کو ہلاک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
میدودیف نے مزید کہا کہ بائیڈن ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ تمام امریکی لیڈروں کا انداز یہی ہے کہ وہ دوسرے ممالک خصوصاً ہم جیسے ممالک پر غلبہ اور تسلط حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بیمار بوڑھا آدمی ہے جو شدید ڈیمنشیا اور بھول پن کا شکار ہے۔ یا شاید ایک قریب المرگ بوڑھے کی طرح اس نے دنیا کو غصے کے ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ آدھی انسانیت کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے ایک تباہ کن ایٹمی جنگ کی تلاش میں ہے۔
روسی سلامتی کونسل کے نائب نے بھی یوکرین میں روس کی جنگ کو ماسکو اور نیٹو کے درمیان پراکسی وار قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایٹمی تصادم کا باعث بن سکتی ہے۔