مہر خبررساں ایجنسی-دین و اندیشہ ڈیسک؛ اسلامی جمہوریہ ایران میں عشرۂ کرامت کا آغاز، ہر سال یوم ولادتِ حضرت فاطمه معصومه سلام اللہ علیہا سے ہوتا ہے اور امام رضا علیہ السّلام کے یوم ولادت تک جاری رہتا ہے، لہذا کل سے باقاعدہ عشرۂ کرامت کے سلسلے میں جشن و محافل کا انعقاد کیا جائے گا۔
آئمۂ اطہار علیہم السلام اور پیغمبر اکرم (ص) کی اولاد میں سے ایک در اور باب الحوائج موسیٰ بن جعفر علیہما السّلام کی بیٹی حضرت فاطمه معصومه سلام اللہ علیہا آسمان تشیع پر چودھویں رات کے چاند کی مانند چمکتی ہیں۔ یہ عظیم المرتبت خاتون اپنی عظیم المرتبت مادر گرامی حضرت فاطمه زہراء سلام اللہ علیہا کی معصومیت کا آئینہ قرار پاتے ہوئے "معصومه" کے نام سے مشہور و معروف ہوئیں۔ آپ کی فضیلت کیلئے اتنا کافی ہے کہ اگر کوئی آپ کی معرفت کو درک کرتے ہوئے زیارت کرے تو اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے، اسی لئے زائرین کی جب پہلی نگاہ آپ کے روضہ مبارک پر پڑتی ہے تو سلام کے بعد کہتے ہیں:یَا فاطمة اشْفَعِی لِی فِی الْجَنَّةِ فَإِنَّ لَکِ عِنْدَ اللَّهِ شَأْناً مِنَ الشَّأْنِ.
ولادت حضرت فاطمه معصومه (س):
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی اس دختر نیک اختر کا اسم گرامی" فاطمه " اور معروف لقب مبارک " معصومه" سلام اللہ علیہا ہے۔ حضرت فاطمه معصومه سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت یکم ذیقعدۃ 173 ہجری قمری کو ہوئی۔
اس عظیم المرتبت خاتون کی با فضیلت اور خوش نصیب والدہ ماجدہ کا اسم گرامی " نجمہ خاتون " ہے کہ جو حضرت امام ہشتم علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی بھی والدہ بزرگوار ہیں۔ بس اسی وجہ سے حضرت معصومہ (س) اور امام رضا (ع) ایک ماں سے ہیں۔ خداوند متعال نے مذکورہ تاریخ میں اپنے عبد صالح، بر حق حجت حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کو اپنی اس خاص نورانی عنایت سے نوازا۔ خدا کی اس خصوصی عطا پر امام ہفتم علیہ السلام اور حضرت امام رضا علیہ السلام کے بعد سب سے زیادہ خوشی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی والدہ ماجدہ کو تھی کیونکہ 25 سال گزرنے کے بعد اس گلشن میں یہ دوسرا مقدس پھول کھل رہا تھا۔ 25 سال پہلے اسی مہینے کی گیارہ تاریخ (یعنی 11 ذیقعد 148 ھ.ق)کو حضرت نجمہ خاتون کو پروردگار نے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون عطا فرمایا تھا جس کا نام نامی و اسم گرامی علی رکھا گیا اور بعد میں "رضا“ کے لقب سے مشہور و معروف ہوئے۔
حضرت فاطمه معصومه س کے فضائل:
آپ کی فضیلتوں میں سے ایک بہت بڑی فضیلت بیت وحی اور کاشانہ رسالت و امامت سے آپ کا انتساب ہے۔ آپ دختر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دختر ولی خدا، خواہر ولی اللہ، ولی اللہ کی پھوپھی ہیں اور یہ امر خود تمام فضائل و کمالات معنوی و روحانی کا سر چشمہ ہے کہ آپ کی زندگی آئمہ معصومین علیہم السلام کے جوار میں گزری ہے، مثلاً امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام اور ایسے راہ نور و سعادت کے رہنماؤں کی تعلیمات سے بہرہ مند ہونا خود آپ کی بلندی روح اور مقام علمی و رفعت علمی کے لئے ایک اساسی عامل ہے، اس بنیاد پر ہم آپ کو فضائل اہلبیت علیہم السلام کا نمونہ کہہ سکتے ہیں۔
عبادت:
قرآن مجید کی صریح آیت ” وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون. ہم نے جن و انس کو فقط اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے، تاکہ اس راہ میں کمال حاصل کرکے ہم سے نزدیک ہوں۔ اس آیت کے پیش نظر ہدف خلقت انسان فقط عبادت الٰہی ہے وہ حضرات جو اس ہدف کی حقیقت سے آگاہ ہیں وہ مرتبہ عالی تک پہنچنے کے لئے جو اطمینان و نفس مطمئنہ کا حصول ہے کسی بھی زحمت کو زحمت نہیں سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی کے بہترین لمحات کو بارگاہ ایزدی میں عبادت و راز و نیاز کا زمانہ سمجھتے ہیں۔ رات کی تاریکی میں اپنے محبوب کی دہلیز پر سر نیاز خم کردیتے ہیں اور زبان دل سے ہم کلام ہوکر والہانہ انداز میں محو راز و نیاز ہوتے ہیں نیز ہمیشہ اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ نماز و راز و نیاز کی حالت میں اس سے ملاقات کریں تا کہ اس آیہ کریمہ ” یا ایتہا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ “ کے مصداق قرار پائیں۔
بندگی اور عبادت الٰہی کا ایک عالی ترین نمونہ کریمہ اہل بیت فاطمہ معصومہ علیہا السلام ہیں۔ وہ ۱۷ دنوں کا قیام اور دختر عبد صالح یعنی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی لخت جگر کی وہ یادگار عبادت، خضوع و خشوع، شب زندہ داری تمام چیزیں آپ کی بندگی و عبادت کا ایک گوشہ ہیں وہ بیت النور اور معبد و محراب اس صفیۃ اللہ کی عبادتوں کی یادگار ہے۔ اسی راز و نیاز کی برکتوں سے لخت جگر باب الحوائج نے قیامت تک کے لئے عاشقان عبادت و ولایت کی ہدایت کی راہیں کھول دیں۔
آپ کی عبادت گاہ موسیٰ بن خزرج کے دولت سرا میں تھی اور آج بھی یہ حجرہ قم میں موجود ہے کہ جو محبان اہلبیت علیہم السلام کی زیارت گاہ ہے۔
عالمہ و محدثہ اہل بیت علیہم السلام
اسلامی فرہنگ میں سچے محدثوں کی ایک خاص عزت و حرمت رہی ہے۔ راویوں اور محدثوں نے گنجینہ معارف اسلامی اور مکتب تشیع کے گرانمایہ ذخیروں نیز اسلام کی غنی ثقافت کی حفاظت کی خاطر ایک نمایاں کردار پیش کیا یہ افراد اسرار آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ اور امانت الٰہی کے امین و محافظ تھے۔ ایک بلند ترین عنوان کہ جو آپ کے علمی مرتبے اور آپ کی معرفت کا شاہکار ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو ” محدثہ “ کہا جاتا ہے بزرگان علم حدیث بلا جھجھک آپ سے منقول احادیث کو قبول فرماتے ہیں اور اس سے استناد کرتے ہیں، کیونکہ آپ مورد وثوق و اطمینان افراد کے علاوہ کسی دوسرے سے حدیث نقل نہیں فرماتی تھیں۔
آپ معصومه ہیں:
اگرچہ مقام عصمت ( گناہوں سے محفوظ رہنا در حالیکہ اس کی قدرت رکھتا ہو ) ایک خاص رتبہ ہے جو انبیاء کرام اور ان کے اوصیاء و خصوصاً چہاردہ معصومین علیہم السلام سے مختص ہے، لیکن بہت سارے ایسے افراد تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں جنھوں نے خداوند عالم کی مخلصانہ بندگی و اطاعت نیز صدق و طہارت کی راہ پر گامزن ہونے کی وجہ سے تقویٰ اور وحی طہارت حاصل کرکے گناہ اور اخلاقی برائیوں سے دوری اختیار کرلی اور اپنی روح کے دامن کو ناپاکی کے دھبے سے بچا لیا۔
فاطمه معصومه (س) جو مکتب آئمہ (ع) کی تربیت یافتہ اور صاحبان آیت تطہیر کی یادگار ہیں، طہارت و پاکیزگی نے اس منزل معراج کو طے کیا کہ ہر خاص و عام نے آپ کو معصومه کا لقب دیدیا۔ یہاں تک کہ بعض بزرگ علماء آپ کو طہارت ذاتی کا حامل اور تالی تلو معصومین علیہم السلام سمجھتے ہیں چنانچہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:
من زار المعصومۃ بقم فقد زارنی یعنی جو قم میں فاطمه معصومه س کی زیارت کرے اس نے گویا میری زیارت کی ہے نیز دوسری زیارت جو آپ کے لئے وارد ہوئی ہے اس کا ایک جملہ یہ ہے : السلام علیک ایتہا الطاہرۃ الحمیدۃ البرۃ الرشیدۃ التقیۃ و النقیۃ. یعنی سلام ہو آپ پر اے پاکیزہ و ستائش شدہ، نیک کردار، ہدایت یافتہ، پرہیزگار اور با صفا خاتون۔
شہر قم کی فضیلت:
شہر قم ۲۳ ہجری میں ایک اسلامی لشکر کے ہاتھوں فتح ہوا، یہاں کے لوگ صدر اسلام سے ہی مذہب تشیع کی طرف مائل تھے۔ تاریخی شواہد کی روشنی میں شہر قم کو اسلام سے پہلے کے آباد شہروں میں شمار کیا جاتا ہے، بہت سے مؤرخین نے اس شہر کو پہلی صدی ہجری کا شہر شمار کیا ہے، شہر قم ۲۳ ہجری میں ایک اسلامی لشکر کے ہاتھوں فتح ہوا، یہاں کے لوگ صدر اسلام سے ہی مذہب تشیع کی طرف مائل تھے، کسی دور میں قم اصفہان کا حصہ شمار کیا جاتا تھا لیکن ۱۸۹ ہجری میں قم اصفہان سے جدا ہوکر ایک مستقل شہر کے عنوان سے پہچانا جانے لگا اور علماء و محققین اور اسلامی تہذیب و تمدن کا مرکز بننے لگا خاص طور پر حضرت معصومه س کی وفات کے بعد اس شہر کو مزید رونق ملی تمام شیعہ اس شہر کو اپنے لئے ایک پناہ گاہ سمجھنے لگے اور حضرت معصومه س کے روضہ کے آس پاس آبادیاں بڑھنے لگیں، تاکہ اس عظیم المرتبت خاتون کے با برکت وجود سے فیضیاب ہو سکیں اور علماء وفضلاء اس سلسلہ میں پیش قدم رہےہیں یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر علماء حرم یا حرم کےنزدیکی مقامات پر درس وتدریس میں مشغول نظر آتے ہیں، لیکن امام خمینی رضوان اللہ کی قیادت میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب نے اس شہر کو دینی علوم، تہذیب و ثقافت کے عظیم مراکز میں تبدیل کردیا۔
ایرانی تاریخ کے مطابق ۱۹ دی ۱۳۵۶ھ شمسی ہجری میں قم کے لوگوں نے جو عظیم قیام کیا اس میں ۵۲۰ / افراد نے جام شہادت نوش کیا ۷۶۰ غازی کے درجے پر فائز ہوئے۔ یہ شہر اور اس شہر کے رہنے والے آج بھی اپنے عظیم رہبر آیۃ اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی کی قیادت میں ثقافتی حملوں اور جھوٹے میڈیا کے مدمقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ڈٹے ہوئے ہیں اور اللہ کے لطف وکرم سے یہی جذبہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجه الشریف کے ظہور تک قائم رہے گا۔