زاہدان- ایرانی صدر نے صوبۂ سیستان و بلوچستان کے اسلامی قبیلوں اور فرقوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کو مثالی قرار دیا اور کہا کہ آج کے دور میں جب دشمن کا ہدف تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنا ہے، لہٰذا صوبے کے بزرگ اور قبیلوں کے سربراہان کو اتحاد و اتفاق کے مسئلے پر زیادہ حکمت عملی سے توجہ دینی چاہیئے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے جمعرات کے روز، صوبۂ سیستان و بلوچستان کے اپنے آخری ایک روزہ دورے کے دوران، اس صوبے کے قبائلی سربراہوں اور دیگر شخصیات سے خصوصی ملاقات کی۔

حجۃ الاسلام‌ رئیسی نے صوبۂ سیستان و بلوچستان کے اسلامی قبیلوں اور فرقوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کو مثالی قرار دیا اور کہا کہ آج کے دور میں جب دشمن کا ہدف تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنا ہے، لہٰذا صوبے کے بزرگ اور قبیلوں کے سربراہان کو اتحاد و اتفاق کے مسئلے پر زیادہ حکمت عملی سے توجہ دینی چاہیئے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ صوبۂ سیستان اور بلوچستان کی سرحد کو غیر محفوظ بنانے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے باوجود، اس بارڈر پر کوئی خطرہ نہیں ہے اور پاکستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی ترقی کے سلسلے میں کیے گئے اچھے معاہدوں بشمول 7 مشترکہ سرحدی منڈیوں کی تعمیر کے حوالے سے مجھے یقین ہے کہ سیستان و بلوچستان میں بہترین اور قابلِ بھروسہ تاجر حضرات موجود ہیں جو پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی معاملات میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

انہوں نے صوبۂ سیستان و بلوچستان میں امن و امان کے استحکام کو نیز خدا کی جانب سے نعمت اور شہداء کی کوششوں اور قربانیوں کا ثمر قرار دیا اور مزید کہا کہ ہمیں کچھ مفاد پرست عناصر کو منظم سازش کے تحت جرائم کا ارتکاب کرنے سے روکنا چاہیئے تاکہ اس صوبے کی سلامتی میں خلل نہ ڈال سکیں۔

آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے گزشتہ سال کے فسادات میں دشمنوں کی جانب سے ملک کی سلامتی اور امن وامان کو متاثر کرنے کے عزائم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال کے واقعات کے دوران کچھ عناصر ملک کی سلامتی کو درہم برہم کرنے کے خواہشمند تھے اور احتجاج کے نام پر نظم و ضبط میں خلل ڈالنا چاہتے تھے جس کی کسی بھی پرامن شہری ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

آخر میں ایرانی صدر نے سیستان اور بلوچستان کو ایران کا اہم ترین علاقہ قرار دیا اور کہا کہ یقیناً آج صوبۂ سیستان و بلوچستان کی صورتحال اسلامی انقلاب سے پہلے اور انقلاب کی فتح کے بعد کے ابتدائی سالوں سے بہت مختلف ہے اور اس صوبے میں عوامی انفراسٹرکچر بنانے کیلئے وسیع پیمانے پر اقدامات کئے جا چکے ہیں۔ لیکن صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ صوبے کے لوگوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید اس صوبے کی خوشحالی کیلئے کوششیں کی جائیں گی۔