سوڈان میں بحران اور داخلی جنگ شروع ہونے کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اعلی حکام متحارب جنرلوں کے درمیان جاری جنگ کو روکنے کی کئی مرتبہ کوشش کرچکے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛گذشتہ مہینے سے سوڈان میں جنرل محمد حمدان دقلو اور جنرل محمد فتاح البرھان کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری ہے۔ جھڑپوں کے نتیجے میں سوڈان کے بین الاقوامی ہوائی اڈے بند ہوگئے ہیں اور ملکی انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ابھی نقصانات کا آغاز ہے جنگ جاری رہنے سے ان میں مزید اضافہ ہوگا۔ موجودہ حالات میں فریقین کے درمیان جنگ بندی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سعودی عرب، عرب امارات اور قطر جیسے ممالک سوڈان میں جنگ بندی کے لئے کوششیں کررہے ہیں۔

سعودی عرب نے غیر ملکی شہریوں کے محفوظ انخلاء کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ جنگ بندی کے لئے اہم اقدامات کئے ہیں اور ریاض میں فریقین کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی کرنے کی پیشکش کی ہے۔ سوڈان میں اقوام متحدہ کے نمائندے کے مطابق جنرل البرھان اور جنرل حمیدتی نے اپنے نمائندے ریاض بھیجنے سے اتفاق کیا ہے۔

دوسری طرف متحدہ عرب امارات نے بھی سوڈان کے بحران کا سیاسی حل نکالنے کے لئے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بن زائد نے جنرل البرھان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور سوڈان میں امن و امان کی بحالی اور ملک کی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لئے عرب امارات کی طرف سے ہر ممکن مدد کی یقینی دہانی کرائی۔ قطر کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں فریقین کو پرامن رہنے اور جنگ کو فوری طور پر روکنے کی اپیل کی گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ خلیجی ممالک سوڈان میں جاری بحران کو کیوں جلد ختم کرنا چاہتے ہیں؟

سوڈان کی اہمیت

اپنے جغرافیائی محل وقوع اور بحیرہ احمر اور دریائے نیل کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے سوڈان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ دوسری طرف یہ افریقہ کا تیسرا بڑا ملک ہے ان وجوہات کی بناپر علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سوڈان کو کوئی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازین یہ ملک زرعی طور پر بھی زرخیز ہے جس کی وجہ سے بیرونی ممالک اور سرمایہ کاروں کو اپنی طرف جذب کرتا ہے۔

سوڈان نے کچھ سال پہلے سے اپنا پانی اور زرعی زمین دوسروں کے لئے پیش کرنا شروع کیا ہے جس کی وجہ سے میٹھے پانی اور زرعی زمین سے محروم خلیجی ممالک نے سوڈان میں دلچسپی لینا شروع کیا اور اپنی زراعت کو ملکی سرحدوں سے دور سوڈان میں منتقل کیا۔ سوڈان میں حاصل ہونے والی زرعی محصولات کو خلیجی ممالک درآمد کرنے لگے اور غذائی اجناس کی پیداوار کے سلسلے میں اپنی ضروریات کو پورا کرنا شروع کیا۔

سعودی عرب نے سوڈان کے مرکزی بینک میں 25 کروڑ ڈالر کی رقم جمع کیا اور زراعت کے ساتھ ساتھ انرجی اور معدنیات میں سرمایہ کاری شروع کی۔ آج سعودی عرب سوڈان میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک شمار ہوتا ہے جس نے زراعت اور دیگر شعبوں میں 500 سے زائد منصوبے شروع کررکھے ہیں جن کی مالیت 35 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔

قطر نے بھی زراعت، سیاحت، رئیل اسٹیٹ اور بندرگاہوں میں 4 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے 7 ارب ڈالر کی خطیر رقم کے ساتھ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ کویت، عمان اور بحرین کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ سوڈان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔

مذکورہ حقائق کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ خلیجی ممالک کی جانب سے ثالثی اور جنگ بندی کی کوششوں کی بنیادی وجہ اپنے سرمایوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ اگرچہ سوڈان کو افریقی ممالک میں اہم حیثیت حاصل ہے لیکن اگر خلیجی ممالک کا کثیر سرمایہ سوڈان میں نہ ہوتا تو سوڈانی بحران کے خاتمے کی کوششیں اتنی زیادہ نہ ہوتیں۔

حالیہ بحران کے شروع ہونے سے پہلے ہی سوڈان میں کچھ تنازعات تھے جو بیرونی سرمایہ کاری کو خطرات سے دوچار کرسکتے تھے جن میں سیاسی عدم استحکام، سیکورٹی اور امنیتی مسائل، توانائی کے وسائل کا بحران وغیرہ شامل ہیں۔ ان مشکلات کے باوجود سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات نے سرمایہ کاری کرکے انتہائی خطرناک قدم اٹھایا۔ کیا ان مشکلات کے باوجود یہ خلیجی ممالک سوڈان میں اپنے وجود کو برقرار رکھ پائیں گے؟

سات ممالک کے ساتھ مشترکہ سرحد ہونے کی وجہ سے بھی سوڈان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور سوڈان میں بحران پیدا ہونے سے کئی ممالک براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ شمالی ہمسایہ کی حیثیت سے مصر سوڈان کے حالات کا نزدیک سے جائزہ لیتا ہے اور ملکی افواج کی حمایت کرتے ہوئے جنرل البرہان کے اقتدار کو تحفظ دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ سوڈان میں اگر حکومت تبدیل ہوجائے تو النہضہ ڈیم کے پانی پر دونوں ملکوں کے درمیان انجام پانے والا معاہدہ دوبارہ ختم ہوسکتا ہے اور مصر کو پانی کے حصول میں دوبارہ مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

اگر بحران جاری رہے تو مہاجرین کا سیلاب مصر اور دوسرے ممالک کا رخ کرے گا۔ ذرائع کے مطابق اگر سوڈان کا بحران جلد ختم نہ ہوجائے تو 8 لاکھ سوڈانی ہمسایہ ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اگر چہ موجودہ حالت می سوڈان کو ہونے والے اقتصادی نقصانات کا اندازہ لگانا ممکن ن نہیں لیکن عرب معاشی ماہرین کے مطابق سوڈان سے سرمایہ کار جلد بیرون ملک منتقل ہوجائیں گے۔ جنگ کے بعد اقتصادی رونق ماند پڑجاتی ہے۔ سوڈان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہ ملک بیرونی سرمایہ کاری پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ بحران جاری رہنے کی صورت میں بیرونی سرمایہ واپس جاسکتا ہے جس سے سوڈان کی معاشی صورتحال مزید پیچیدہ اور مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔

لیبلز