مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ مرتضی مطہری کے یوم شہادت کے موقع پر منائے جانے والے یوم اساتذہ کی مناسبت سے اساتذہ اور ثقافتی امور کے فعال افراد سے خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم نے فرمایا کہ اسکولوں میں زیرتعلیم بچوں کے اندر اسلامی اور ایرانی تشخص کو بھی زندہ کریں۔ بچوں کو ایرانی ہونے پر فخر کا احساس ہونا چاہئے۔
رہبر معظم نے شہید مرتضی مطہری کو حقیقی استاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے اندر وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جو ایک استاد کے اندر ہونا چاہئے۔ ان کے اندر علم، احساس ذمہ داری اور نظم و ضبط سمیت تمام خوبیان بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ان کی شہادت کے اثرات معاشرے میں ظاہر ہوگئے ہیں۔ میری نصیحت یہی ہے کہ ان کے آثار کا مطالعہ کیا جائے۔
رہبر معظم نے اساتذہ کو انقلاب اسلامی کے گمنام سپاہی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں خاموشی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں مصروف ہیں۔ اس راہ میں موجود تمام مشکلات برداشت کررہے ہیں۔ حقیقت میں اساتذہ ہی ملت کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور روشن مستقبل کے لئے ان کو معاشرے میں تیار کررہے ہیں۔
رہبر معظم نے مزید فرمایا کہ سرکاری اسکولوں کی تعلیمی کیفیت میں کمی نہیں آنا چاہئے۔ اگر سرکاری اسکولوں میں اچھی تعلیم نہ دی جائے تو غریب کے بچے متاثر ہوں گے اس کے نتیجے میں وہ علمی میدان میں پیچھے رہ جائیں گے جو کہ ناانصافی ہے اور کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے۔
انھوں نے ملک کے ذہین بچوں اور نوجوانوں میں ایرانی و اسلامی تشخص اور قومی شخصیت کے احساس کی بحالی کو ایک بنیادی ذمہ داری بتایا اور کہا کہ طلباء کو قابل فخر ہستیوں اور ان کے ثقافتی، علمی اور تاریخ ماضی سے حقیقی معنی میں روشناس کرانا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ٹیچر سوسائٹی کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے ذمہ داری کے بھرپور احساس کو ایک حقیقی ضرورت بتایا اور کہا کہ ٹیچروں کی معیشت بہت اہم ہے لیکن ٹیچروں کے صرف معاشی مسائل ہی نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے جن میں مہارت کا حصول، تجربات کا حصول اور ٹیچرز یونیوسٹی پر توجہ جیسی باتیں بھی شامل ہیں۔
انھوں نے ملک کی ہمہ جہت پیشرفت کی دشوار وادیوں سے عبور کو، تعلیم و تربیت کے ادارے کی مدد اور اس کے رول کے بغیر ناممکن بتایا اور ملک کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے اسکول کی مرکزی حیثیت پر مبنی متعدد ماہرین کے اتفاق رائے کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا کہ راہ حل، اسکولوں کی اصلاح کے لیے صحیح منصوبہ بندی اور عزم مصمم ہے اور تمام عہدیداران، فیصلہ کرنے والوں اور عوام کو، تعلیم و تربیت کے ادارے کی حیاتی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے تعلیم و تربیت کے مینجمنٹ میں عدم استحکام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اتنے بڑے ادارے کو وزیر کی لگاتار تبدیلی سے نقصان پہنچتا ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ وزیر کی تبدیلی کے ساتھ کبھی کبھی اس کے معاونین، اوسط درجے والے افسران یہاں تک کہ اسکولوں کے پرنسپل تک بدل دیے جاتے ہیں۔
انھوں نے تعلیم و تربیت کے ادارے کے ڈھانچے، نصاب اور تعلیمی سسٹم کو ملک کی ضرورتوں کے مطابق بنائے جانے کو بہت اہم بتایا اور زور دے کر کہا کہ ملک کو جتنی مفکرین اور دانشوروں کی ضرورت ہے، اتنی ہی کام کی ماہر افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تعلیم و تربیت کے ادارے کے بنیادی تغیرات کی دستاویز کے سلسلے میں بھی عہدیداران کو کچھ اہم سفارشیں کی۔
انھوں نے نصابی کتابوں کو اپ ٹو ڈیٹ اور زمانے کی تبدیلی کے لحاظ سے تبدیل کرنے کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات اور مشہور اسلامی اور ایرانی شخصیات کو ان کتابوں میں شامل کرنا، ایک ضروری کام بتایا اور کہا کہ زمانے کی تبدیلی سے بعض لوگوں کی مراد اصولوں کی تبدیلی ہے جبکہ عدل و انصاف اور محبت جیسی بنیادی باتیں کبھی نہیں بدلتیں بلکہ تحریر اور بیان کے طریقے جیسے عمارت کے اوپری حصے بدل سکتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں تعلیم و تربیت کے ادارے میں تربیتی امور کے اہتمام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان تربیتی امور کا اہتمام اسکولوں میں بھی کیا جانا چاہیے۔
اس ملاقات کے آغاز میں تعلیم و تربیت کی وزارت کے سرپرست جناب صحرائي نے، پچھلے ایک سال کی سرگرمیوں اور آئندہ کے پروگراموں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی