مہر خبررساں ایجنسی، سیاست ڈیسک؛ طویل قانونی پیروی کے بعد جمعرات کو بین الاقوامی عدالت انصاف نے بالآخر امریکی حکومت کے خلاف ایران کی شکایت اور کچھ منجمد اثاثوں کے حوالے سے تہران کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ اس عدالت نے اقوام متحدہ کے عدالتی رکن کے طور پر بعض ایرانی اثاثوں کے معاملے میں واشنگٹن کے خلاف فیصلہ سنایا جبکہ امریکی حکومت کے تمام دفاع اور دعووں کو مسترد کر دیا۔ یہ ایسا فیصلہ ہے جس کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکتی اور مقدمہ کے فریقین اس کے اجرا کی پابند ہیں۔ یہ فیصلہ تہران کے پیش کردہ شواہد اور دلائل کی مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے۔
عالمی عدالت انصاف اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی ایک دوسرے کے خلاف شکایات کا ازالہ کرتی ہے۔ اس عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ امریکی حکومت نے بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ امریکی حکومت نے دونوں ممالک کے درمیان 1955 کے معاہدے کے آرٹیکل 3 (پیراگراف 1)، آرٹیکل 4 (پیراگراف 1 اور 2) اور آرٹیکل 10 میں شامل ذمہ داریوں اور ایران اور امریکہ کے درمیان اقتصادی تعلقات اور قونصلر حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔
واضح رہے کہ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے ایران کی شکایت کے معاملے میں جاری کردہ فیصلہ تین حصوں پر مشتمل ہے؛
پہلے حصے میں، امریکی حکومت کی طرف سے 1955 کے معاہدے کی بار بار خلاف ورزیوں کے موضوع پر، اسلامی جمہوریہ ایران کے حق میں رأی صادر کی گئی ہے۔ عدالت کی جانب سے واشنگٹن کو اس کی خلاف ورزی کا مجرم قرار دییتے ہوئے مذمت کی گئی ہے۔ اس صورت میں امریکہ ایران کو ہرجانہ ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ تاہم عدالت کی رائے کے مطابق معاوضے کی رقم کا تعین فریقین کے درمیان بات چیت کے ذریعے اور دو سال کے اندر اندر کیا جائے گا۔
ہیگ کورٹ کے فیصلے کا دوسرا حصہ مرکزی بینک کے اثاثوں سے متعلق ہے۔ اس حوالے سے عدالت نے اس معاملے سے نمٹنے کے اپنے اختیارات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے فریقین میں سے کسی کے حق میں فیصلہ سنائے بغیر غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا۔ امریکی فریق اس کی تشریح اپنے حق میں کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب کہ ہیگ کورٹ نے ایران کے مرکزی بینک کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کیا بلکہ محض 1955 کے میچورٹی معاہدے کی سماعت کے لئے خود کو موزوں پلیٹ فارم نہیں سمجھا ہے۔ یہ دونوں بالکل مختلف موضوع ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہیے اور مغربی میڈیا کے یک طرفہ پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ مغربی میڈیا اس فیصلے کو واشنگٹن کے اقدامات کی توثیق قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے جو کہ سراسر غلط اور حقیقت سے دور ہے۔
فیصلے کا تیسرا حصہ دیگر ایرانی کمپنیوں کی جائیدادوں سے متعلق ہے۔ اس حصے میں مکمل طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے حق میں رأی دیتے ہوئے امریکہ کی مذمت کی گئی ہے۔ عدالت نے اپنی رأی میں ایران کی کمپنیوں کے اثاثوں کو جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ہیگ کی عدالت کے جاری کردہ فیصلے پر اعتراض کی کوئی گنجائجش نہیں ہے۔ اگر فریقین میں سے کوئی بھی اس حکم نامے پر عمل درآمد سے انکار کرتا ہے تو دوسرا فریق اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھاکر اس کی پیروی کر سکتا ہے۔
ہیگ کورٹ میں فتح ایران کی طاقت کی علامت ہے
سیاسی تجزیہ نگار اصغر زارعی نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں جمعرات کے روز ہیگ کی عدالت کے فیصلے کے حوالے سے کہا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان وفاداری اور دوستی کے معاہدے پر غور کرتے ہوئے جو پہلوی حکومت میں طے پایا تھا اور اس میں فریقین کو تجارتی اور اقتصادی معاملات کا پابند کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے امریکہ نے اسلامی انقلاب کے بعد بارہا 1955 کے معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی طرف سے کئے گئے ان اقدامات میں اسلامی جمہوریہ کے اثاثوں کا منجمد کرنا ہے جس میں مرکزی بینک اور ایران سے وابستہ کمپنیاں بھی شامل ہیں جن کی بعض جائیدادیں ان کے صدر کے حکم کی بنیاد پر امریکہ میں ضبط کر دی گئی ہیں۔
زارعی نے بیان کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے مختلف ادوار میں ایرانی حکومت کے حقوق حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی پیروی کی وجہ سے ہیگ کی عدالت میں ایرانی وکلاء کو قانونی کامیابی ملی ہے۔ یہ ایران کے اثاثوں کے ایک حصے کو منجمد کرنے کے حوالے سے امریکی حکومت کے خلاف ایک قانونی شکایت تھی جس پر 1955 کے قرض کے معاہدے کی بنیاد پر دستخط کیے گئے تھے۔ انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہیگ کی عدالت کے ججوں نے طویل عرصے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا اور اس معاملے کو ایرانی حکومت کا حق قرار دیا اور اس معاملے میں امریکی حکومت کی مذمت کی اور اب اس فیصلے کے بعد امریکی حکومت کو اسلامی جمہوریہ ایران کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں اس عدالت کے فیصلے کی بنیاد پر عمل کرنا ہوگا۔
سیاسی تجزیہ نگار نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کی فتح ہے، اگرچہ امریکی حکومت نے اس عدالت کے فیصلے کو بدلنے کی بہت کوشش کی لیکن آخر کار وہ کامیاب نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہاکہ یہ قانونی کامیابی اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے سیاسی طور پر بھی اہم ہے، کیونکہ امریکہ گذشتہ سال ایران میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک کمزور اور غیر فعال حکومت کے طور پر دکھانے کی کوشش کر رہا تھا جو بین الاقوامی سطح پر اپنے حقوق کا دفاع نہیں کر سکتی ہے لیکن ہیگ کی عدالت میں اس کامیابی نے ثابت کیا کہ تہران اپنے حقوق اور ایرانی قوم کے دفاع میں مشغول ہے اور یہ فتح اسلامی جمہوریہ ایران کی لیے طاقت اور حقانیت کی علامت ہے۔
زارعی نے مغربی میڈیا کی بعض من گھڑت خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ کا مقصد اس کامیابی کو برعکس دکھانا ہے، لیکن اس فیصلے کے 3 حصوں میں، عدالت نے ایران کو حق بجانب قرار دیا ہے اور اس نے باضابطہ طور پر امریکی حکومت کی مذمت کی ہے کہ وہ جرائم کے حوالے سے کارروائی کرے اور امریکہ میں ایرانی کمپنیوں کو درپیش مالیاتی رکاوٹوں کو دور کرے۔
ہیگ عدالت کے فیصلے سے امریکہ کی حوصلہ شکنی
امریکی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ایران کے مرکزی بینک کی طرف سے امریکہ میں ضبط کی گئی رقوم کے بارے میں ہیگ کی عدالت کے دائرہ اختیار سے متعلق فیصلے پر رد عمل ظاہر کیا۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں عدالتی فیصلے پر سخت مایوسی ظاہر کی جس میں ایرانی کمپنیوں کے اثاثوں سے دہشت گردی سے متاثر امریکیوں کو ہرجانے کی ادائیگی کو امریکی قانون سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔
ہیگ کی عدالت کا فیصلہ اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی حقانیت کی علامت ہے
ایران کی وزارت خارجہ نے ہیگ کی عدالت کے جاری کردہ فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس کو اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی قانونی فتح اور امریکی حکومت کی خلاف ورزیوں کی ایک اور دستاویز قرار دیا ہے۔ وزارت خارجہ نے مزید کہا ہے کہ اس اہم فیصلے میں عدالت نے امریکہ کے تمام جھوٹے دفاع کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ عدالت نے امریکہ کی جانب سے معاہدوں کی خلاف ورزی پر تاکید کرتے ہوئے ایران کے حق کو تسلیم اور امریکہ کو نقصانات کی تلافی کا ضامن قرار دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اسلامی جمہوری ایران کے مطالبات صحیح ہونے کی واضح دلیل ہے۔
دی ہیگ میں کامیابی، مستقبل کی فتوحات کی پہلی سیڑھی
ایران اور امریکہ نے 23 اگست 1334 کو پہلوی دور میں دوستی اور وفاداری کے معاہدے کے آرٹیکل 21 کے پیراگراف 2 میں اعلان کیا تھا کہ اس معاہدے کی تشریح یا نفاذ سے متعلق سفارتی ذرائع سے ناقابل حل تنازعہ پیش آنے کی صورت میں ہیگ کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ ایک مقدمہ اور 23 شقوں پر مشتمل ہے۔ ماضی میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اس معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے مختلف معاملات میں، جیسے ایرانی تیل کی تنصیبات پر امریکہ کے حملے یا مسافر بردار طیارے کو گرائے جانے جیسے معاملات میں ہیگ کی عدالت سے شکایت کی ہے اور اس کی سماعت کو عدالت نے قبول کر لیا اور عدالت کے دائرہ اختیار کی تصدیق کی گئی کہ اس مسئلے کی جانچ پڑتال کی جائے؛ جو کہ ایران اور امریکہ کے درمیان 1955 کے معاہدے کے مستند، قابل اعتماد اور درست ہونے کی علامت ہے۔ اس طرح واضح رہے کہ 1955 کا دوستی معاہدہ ایرانی قوم کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے قانونی طور پر درست ہے اور ہیگ کی عدالت کے فیصلے دنیا میں بہت زیادہ عدالتی اور سیاسی اعتبار کے حامل ہیں اور تمام ممالک ان پر عمل درامد کے پابند ہیں۔
درحقیقت مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے سے قطع نظر ہیگ کی عدالت کے جاری کیے گئے فیصلے ایران کے موقف کی قانونی حیثیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ ہیگ ٹربیونل کے جاری کردہ فیصلوں پر عمل درآمد میں امریکی حکومت کی ہٹ دھرمی اور بدمعاشی کی وجہ سے تاخیر ہو سکتی ہے، لیکن عدالت میں ایران کی حقانیت کا اثبات خود ایک بہت بڑی قانونی، سیاسی اور تاریخی کامیابی ہے۔ یہ فیصلہ مستقبل میں مزید پیریوں اور کامیابیوں کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے جس کی روشنی میں ملک کے تجربہ کار وکلاء اور سفارت کار قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے قومی ضبط شدہ اثاثوں کی بازیابی میں مزید کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔