ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ شہید سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے قتل کی پیروی کے لیے مذاکرات کا چوتھا دور اسلامی جمہوریہ ایران کی میزبانی میں اگلے ہفتے منعقد ہوگا۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان آج پیر کے روز محکمہ خارجہ میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کی تقریب سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں شہید جنرل سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے دیگر شہداء کی روحوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

انہوں نے شہید سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کے بزدلانہ قتل کے امریکی اقدام کے مقدمے کی قانونی اور بین الاقوامی سطح پر پیروی کرنا ایرانی سفاتی مشن کے قدرتی اور اہم فرائض میں شمار کیا۔

امیر عبداللہیان نے مزید کہا کہ ہم سفارتی سطح پر اپنے اقدامات میں تیزی لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم سوئز سفارت کے توسط سے جو ایران میں امریکی مفادات کی محافظ ہے، امریکہ پر واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ کے اس قاتلانہ اقدام کو انجام دینے والوں اور اس کا حکم دینے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لئے اپنے فرائض کی ادائیگی سے ایک لمحہ بھی غفلت سے کام نہیں لیں گے اور جنرل سلیمانی کے قتل کے ذمہ دار ان امریکی مجرموں اور دہشت گردوں کو انصاف کے حوالے کرنے تک اپنی پیروی کو جاری رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک ہم عراق کے ساتھ مذاکرات کے تین دور کر چکے ہیں اور شہید سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے قتل کی پیروی کے لیے مذاکرات کا چوتھا دور آئندہ ہفتے اسلامی جمہوریہ ایران کی میزبانی میں منعقد ہوگا۔ 

ایرانی وزیر خارجہ نے شہید جنرل سلیمانی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شہید سلیمانی کی عسکری خصوصیات کے علاوہ، سفارتی نظام میں ہمارے خصوصی کام کے لحاظ سے ان میں کیا خصوصیات تھیں؟ ایران، عراق اور امریکہ کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے دوران جو عراق کی درخواست پر ہوئے تھے، انہوں نے ایک گھنٹہ بات چیت کے لیے کیس کے انچارج کے طور پر 40 گھنٹے سے زیادہ وقت گزارا تاکہ جب ٹیم مذاکرات کی ٹیبل پر آئے تو تمام تفصیلات کا تجزیہ کرے اور مذاکرات کی میز پر کوئی سوال بغیر جواب نہ رہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات کے دوران امریکی فریق نے بار بار کہا کہ آپ کو مسائل کے بارے میں وائٹ ہاؤس سے بات کرنا ہوگی تاہم مذاکرات کے اس انداز کے بارے میں ہمارا مذاکراتی تجربہ ٹھوس اور مضبوط تھا جو انہیں اپنی ٹیم کی بدولت حاصل تھا۔

امیر عبداللہیان نے کہا شہید جنرل سلیمانی نے خطے میں ایک میراث، باقیات صالحات اور اپنا ایک خاص اثر چھوڑا اور وہ ہے خطے کے ایک اہم حصے میں نئے سیاسی انتظامات کی تشکیل جسے ہم  مقاومت کا محور کہتے ہیں۔