مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ان دنوں کرمان کے گلزار شہدا ء میں مزاحمتی محاذ کی حمایت کرنے والے اور اس سے تعلق رکھنے والے افراد کی مختلف ملکوں سے آمد جاری ہے جبکہ حالیہ دنوں میں کرمان میں عراقیوں کی موجودگی مزید بڑھ گئی ہے۔
شہید سلیمانی کی تیسری برسی کے موقع پر عراقی زائرین کی ایک بڑی تعداد کرمان پہنچ چکی ہے۔ عراقیوں نے شہید سلیمانی کی برسی کے لئے آنے والے زائرین اور عقیدت مندوں کی استقبال کے لیے مین ہائی وے سے گلزار شہداء تک کے راستے پر مختلف موکب بھی لگائے ہیں جنہیں “قاسم کا راستہ” کا نام دیا ہے۔
عراقی زائرین نے کرمان کے گلزار شہداء میں "حاج قاسم، شکریہ" کے عنوان سے ایک نظم پڑھ کر شہید سلیمانی اور مقدس مقامات کا دفاع کرنے والے شہداء کا شکریہ ادا کیا۔
ان لوگوں میں عراقی قبائل اور عشائر کی بڑی تعداد موجود ہے ۔ ان کے ساتھ ساتھ حشد الشعبی کے بہت سے اہلکار اور شہید سلیمانی کے ساتھی جنہوں نے داعش کے خلاف مل کر انہیں اس ملک سے باہر نکالا تھا بھی پہنچ گئے ہیں۔
گلزار شہداء میں اس وقت جاری پروگراموں کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کے لئے مترجمیں بھی موجود ہیں۔ اس طرح غیر ملکی زائرین بھی ان روح پرور اور معرفت انگیز پروگراموں سے مستفید ہو رہے ہیں۔
شہید سلیمانی کے مزار کے اردگرد اس وقت ماحول ایسا ہے کہ گویا مزاحمت کے محور کا دل شہید سلیمانی کے مزار کے پاس دھڑکتا ہو اور زائرین میں سے ہر ایک فرد ایسا سفیر ہے جو اپنی وطن میں اس مکتب کو فروغ دینے کا عزم رکھتا ہے۔
عراقی شیعہ اور سنی قبائلی سرداروں نے لبنانی، شامی اور ایرانی زائرین کے ساتھ مل کر کرمان میں حرم کا دفاع کرنے والے شہداء کے گرد اتحاد کا ایک حلقہ تشکیل دیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مزاحمتی محاذ کے راستے کو جاری رکھیں گے اور شہداء کے خون کا بدلہ ضرور لیں گے۔
بوخلیل نامی عراقی قبائلی سردار کا کہنا ہے کہ ہم یہاں شہید سلیمانی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے آئے ہیں، حاج قاسم نے ہمارے خاندانوں، خواتین اور بچوں کے دفاع کے لیے اپنی جان قربان کی اور ہم ہمیشہ اس بات پر شرمندہ ہیں کہ شہید سلیمانی ہماری سرزمین پر اس وقت شہید ہوئے جب انہوں نے ہمیں داعش سے بچانے کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔
حاج قاسم عراقی جوانوں کے لیے آزادی اور جرات کی علامت ہیں
انہوں نے کہاکہ حاج قاسم سلیمانی عراق میں آزادی اور جرات کی علامت ہیں اور عراق اور حشد العشبی کے جوان انہیں ایک حریت پسند شخص کے طور پر جانتے ہیں، درحقیقت شہداء ابو مہدی المہندس اور شہید سلیمانی کے قتل نے ایران اور عراق کو مزید متحد کر دیا اور ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہمارے مشترکہ دشمن نے عراقی اور ایرانی قوموں کا ہمیشہ سے خون بہا یا ہے اور امریکہ کو جان لینا چاہیے کہ اس خطے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ عراق پر داعش کے حملے کے دوران ہمارے فوجی دستے فرار ہو گئے، یہ شہید سلیمانی ہی تھے جنہوں نے عراقی نوجوانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں خود اعتمادی دلائی تاکہ وہ داعش کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔
عراقی قبائلی سردار نے ایران کو خطے میں طاقت، مزاحمت اور جرأت کی علامت قرار دیا اور کہاکہ جہاں کہیں بھی امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادی ظلم و جبر کے لیے آئے، ایران نے ان کے سامنے کھڑے ہو کر مظلوم اقوام کا دفاع کیا اور یہ بات شکر گزاری کے لائق ہے۔ اسی لئے دشمن سے ایران ناراض ہے اور مزاحمت کے محور کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔
دشمن تقسیم کرکے حکومت کرتا ہے
ام سلمان ایک عراقی خاتون ہیں جنہوں نے مہر کے رپورٹر کو بتایاکہ جو شخص یہاں آرام کر رہا ہے اس نے عراق کے لوگوں کی خدمت کی اور ہمیں دہشت گردوں سے بچایا، اس نے ہمیں امن و سلامتی عطا کی، جب کہ عراق پر داعش کے حملے کے وقت امریکی بھی تھے۔ لیکن وہ صرف دہشت گردوں کی خونریزی اور وحشیانہ کارروائیوں میں مشغول تھے لیکن یہ ایرانی ہی تھے جنہوں نے ہمارے شہروں اور دیہاتوں کو داعش کے ہاتھوں سے بچایا۔
ہمیں دہشت گردوں سے بچایا، اس نے ہمیں امن و سلامتی عطا کی، جب کہ عراق پر داعش کے حملے کے وقت امریکی بھی تھے۔ لیکن وہ صرف دہشت گردوں کی خونریزی اور وحشیانہ کارروائیوں میں مشغول تھے۔
انہوں نے کہاکہ دشمن ہر روز نئی کہانیوں کے ساتھ خطے کی اقوام کے اتحاد کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور یہ مسئلہ عراق میں ہمیشہ موجود رہا ہے اور ان کا ہدف ہمارے تیل اور قومی ذخائر کو لوٹنا ہے لیکن ہمارے جوان ہوشیار ہیں اور ہم ان کا مقابلہ کریں گے۔ ان کو عراق سے نکا کر حاج قاسم سلیمانی کے راستے کو جاری رکھیں گے۔
ایک اور عراقی زائر ابو حسن شافعی کہتے ہیں کہ یہ ناقابل یقین ہے کہ عراق اور شام میں کرمان کے شہداء کی اس تعداد نے دوسرے ممالک کے لوگوں کے دفاع کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ شہید سلیمانی راہ خدا میں لڑے اور آخر کار یہ مردِ خدا ہمیشہ کے لیے جاودانی ہوگیا۔
کربلا سے آنے والے محمد زروانی بھی کہتے ہیں کہ ہم شہید قاسم سلیمانی کا شکریہ ادا کرتے ہیں، انہوں نے عراق میں ہمارے لیے وہ تحفظ فراہم کیا جو ہمارے فوجی فراہم نہیں کر سکے تھے، شہید سردار سلیمانی اللہ کےراستے پر ثابت قدم تھے۔
شہید سلیمانی انسانیت کے نجات دہندہ تھے
انہوں نے کہاکہ شہید سلیمانی کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ مظلوم قوم لبنانی ہو، عراقی ہو، شامی ہو، یمنی ہو یا کوئی اور، ان کے لئے یہ بھی معنی نہیں رکھتا تھا کہ وہ سنی، عیسائی، شیعہ یا یزیدی ہے، وہ انسانیت کو بچانے کے لیے اٹھے ۔ وہ دشمن کو بخوبی پہچانتے تھے اور ہم نے ان کی انسانیت سے محبت کو اس وقت دیکھا جب داعش کی دہشت گردی عروج پر تھی لیکن انہوں نے کسی چیز کی پروا کیے بغیر ہمیں بچایا۔
انہوں نے مزید کہاکہ عراق اور شام کے دیہاتوں، قبائل اور شہروں میں ہر ایک کو ان کے بارے میں بتانا ہوگا تاکہ سب کو معلوم ہو کہ یہاں کون اور کتنا عظیم آدمی آرام کر رہا ہے۔