پاکستانی ممتاز عالم دین نے کہاکہ اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو علامہ غلام حسنین وجدانی کی گفتگو میں کسی قسم کی کوئی توہین موجود نہیں تھی لیکن ان پر توہینِ صحابہ کا الزام لگا کر پاکستان کے ازلی دشمنوں (تکفیری ناصبیوں) کو اہلِ اقتدار نے خوش کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے امام جمعہ کوئٹہ علامہ غلام حسنین وجدانی کی گرفتاری کو ملتِ تشیع کے خلاف بلوچستان حکومت اور کوئٹہ انتظامیہ کی متعصبانہ کارروائی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو علامہ غلام حسنین وجدانی کی گفتگو میں کسی قسم کی کوئی توہین موجود نہیں تھی لیکن ان پر توہینِ صحابہ کا الزام لگا کر پاکستان کے ازلی دشمنوں (تکفیری ناصبیوں) کو اہلِ اقتدار نے خوش کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ علامہ وجدانی کی تقریر اتحاد بین المسلمین پر استوار تھی جس میں انہوں نے وحدت و احترام بین المسلمین کی تاکید کی اور ایک دوسرے کی دل آزاری سے روکا۔ اسی تقریر میں انہوں نے مشترکاتِ امت کے فروغ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ معارف اہلِ بیت علیہم السلام کو بیان کرتے ہوئے اپنے عقیدہ کو بچوں کے دلوں میں اتاریں، حق و باطل کو وہ سمجھ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس گفتگو سے مراد کسی کی توہین ہے؟

علامہ امین شہیدی نے کہا کہ ہم مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے شیعہ بھی ہیں اور مکتب اہل بیتؑ کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنے عقیدہ کے انتخاب کا پورا حق حاصل ہے بالکل اسی طرح کہ جس طرح کسی دوسرے مکتبِ فکر اور مسلک کے پیروکاروں کو اپنے عقیدہ کے چناؤ کا حق حاصل ہے۔ کسی شیعہ کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ اہلِ سنت کی طرف سے کسی قرآنی آیت کی مخصوص تعبیر اختیار کرنے پر اعتراض کرے اور انہیں اپنی بنائی ہوئی تعبیر کو تسلیم کرنے پر مجبور کرے، اور نہ وہ دوسرے مکتبِ فکر کے کسی شخص کو اس بات پر مجبور کر سکتا ہے کہ وہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو رسول کریمؐ کا خلیفہ برحق سمجھنے کے عقیدہ کی تائید کرے۔ کوئی غیر شیعہ بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ دیگر مسالک کے پیروکاروں کے عقیدہ کی آزادی کو صلب کرنے کی کوشش کرے۔ خلافت کے اختلاف کا مسئلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ کی احادیث کی تعبیرات میں اختلاف کی وجہ سے ان کی رحلت کے فورا بعد شروع ہوا، اس لئے اگر ہم شیعہ سنی دونوں روایات کو ملاحظہ کریں تو یہ چیز ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر اور دیگر صحابہ یہ سمجھتے تھے کہ علیؑ خلافت کے مسئلہ میں ابوبکر اور ان کے ہمنواؤں سے ناراض تھے اور انہوں نے احتجاج کیا۔ صحیح بخاری میں وہ احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام حضرت ابوبکر سے فرماتے ہیں کہ انہوں (ابوبکر) نے منصبِ خلافت کو زبردستی حاصل کرتے ہوئے استبداد کا مظاہرہ کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک مسلم الثبوت موضوع ہے جو پہلے دن سے ہی اختلافی رہا ہے۔ آج کچھ دشمنانِ اہل بیت علیہم السلام اس موضوع کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اور توہین کے نعرے کے ساتھ ان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جاہل و متعصب حکمران، انتظامیہ، پولیس اور سی ٹی ڈی ان فرقہ پرست دہشت گردوں اور خود کش حملہ آوروں کے دباؤ میں آ کر ہم سے ہمارا عقیدہ چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان اور پاکستان سے باہر بہرحال عقیدہ کا یہ اختلاف موجود ہے۔ جب کوئی اہلِ سنت نبی کریمؐ کے محترم والدین اور امیر المومنین حضرت علیؑ کے والد گرامی کی بخاری کی حدیث کی روشنی میں توہین کرتا ہے اور ان کو نعوذ باللہ کافر یا جہنم میں قرار دیتا ہے تو چونکہ ان کے ہاں یہ حدیث موجود ہے اس لئے ہم دلیل کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ توہین کا ارتکاب درست نہیں۔ لیکن اگر اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعہ تشیع سے ان کا عقیدہ چھیننے کی کوشش کی جائے گی تو اہلِ بیتؑ کے کسی بھی پیروکار کے لئے یہ بات قابل برداشت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اہلِ سنت علماء کو چاہیے کہ ان متعصب ناصبیوں اور اہل بیت کے دشمنوں سے دوری اختیار کر کے پاکستان میں برداشت و رواداری کی فضا قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور اپنے عقائد کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی کمیونٹی اور پیروکاروں میں اپنا فہمِ دین منتقل کرتے رہیں۔ ہمارے ساتھ رہنے والی ہندو اقلیت کے لوگ خدائے یکتا کی وحدانیت کے منکر ہیں، اسی طرح یہاں مسیحی بھی مقیم ہیں جو رسولِ خدا کی رسالت اور خاتمیت کا انکار کرتے ہیں لیکن اس وجہ سے ہم ان کو قابلِ زدنی قرار نہیں دیتے اور نہ ہم ان کو جیل میں ڈالتے ہیں۔ جب اللہ اور اس کے رسول کے منکر اس معاشرہ کے اندر قانون کے سایہ میں افہام و تفہیم اور مذہبی رواداری کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں تو پھر صحابہ کے اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کی گردن کاٹنا، اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ پڑھنے والوں کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر کوئی حضرت ابوبکر کو پہلا خلیفہ نہیں مانتا تو اس سے اسلام کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اسلام لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا نام ہے۔ اسی طرح اگر کوئی امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اللہ اور رسول کریم کا خلیفہ بلا فصل نہیں مانتا تو اسے کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ علی کی ولایت کا اقرار نہ کرنا اس چیز کا باعث نہیں کہ کسی پر کفر کا فتوی لگا دیا جائے۔ مکتبِ تشیع کے پیروکار اس بات پر متفق ہیں کہ رسول کریم کے بعد قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں اگر کوئی شخص خلیفہ قرار دیا جا سکتا ہے (خواہ ظاہری طور پر اسے خلافت کا منصب نہ بھی دیا جائے) تو وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی ہیں۔ اگر ان کی جگہ کسی اور کو خلیفہ مقرر کیا جائے گا تو وہ اللہ اور رسول کی بجائے لوگوں کا منتخب کردہ خلیفہ ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص حضرت ابو بکر کو پہلا خلیفہ نہ مانے تو یہ وجہ اس کو اسلام سے خارج کرنے کا باعث نہیں بن سکتی۔ قرآن و سنت، مسلم امہ اور پاکستان کی سالمیت سے کھلواڑ کرنے کا نقصان سب کو ہوگا۔ بلوچستان حکومت اور فرقہ پرستوں کو چاہیے کہ اپنی زبانوں کو لگام دیں اور امت و پاکستانی قوم کے درمیان تفرقہ پیدا کر کے ملک کو مزید ڈبونے کی کوشش نہ کریں۔ گذشتہ چالیس برسوں کے دوران فرقہ پرستوں اور مذہبی ناصبیوں نے انتہا پسندی، خودکش حملوں اور تکفیر کے ذریعہ اس ملک کو تباہی کے جس دہانہ پر پہنچایا ہے وہ ہماری آئندہ سات نسلوں کے لئے کافی ہے۔ اہلِ اقتدار کی ذمہ داری ہے کہ اس سلسلہ کو روکا جائے اور علامہ غلام حسین وجدانی جیسے اتحاد امت کے داعی اور محبِ وطن شخص پر بھونڈے الزامات لگا کر کروڑوں شیعیانِ پاکستان کو رنجیدہ خاطر نہ کیا جائے۔ بلا جواز گرفتاری جیسا اقدام پاکستان اور امت کے مختلف طبقات کے حق میں بہتر نہیں۔

لیبلز