اتوار کے روز ایک تقریب میں ایران کے مقامی تیار کردہ ایئر ڈیفینس سسٹم 'باور-373' اور نئے ٹھوس ایندھن والے میزائل 'صیاد 4B' کی رونمائی کی گئی اور 'صیاد 4B' کے ذریعے 'باور-373' کے اپ گریڈ سسٹم کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران نے آج اتوار کو ایک تقریب کے دوران 300 کلومیٹر رینج والے نئے میزائل 'صیاد 4 بی' اور مقامی طور پر تیار کردہ اور اپ گریڈ دفاعی سسٹم 'باور-373' کی رونمائی کی۔ اس تقریب میں ایران کے وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل محمد رضا آشتیانی، آرمی ایئر ڈیفنس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل علیرضا صباحی فرد اور ملکی دفاعی صنعت کے متعدد ماہرین شریک تھے۔

تفصیلات کے مطابق اپ گریڈ 'باور-373' ایئر ڈیفنس سسٹم کا نئے میزائل 'صیاد 4 بی' کے ساتھ تجربہ کیا گیا جس میں 'باور-373' نے مذکورہ میزائل کے ذریعے 300 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔

ایرانی فضائی دفاعی نظام اپنے مطلوبہ ریڈار کی مدد سے 450 کلومیٹر سے زیادہ کی رینج میں ہدف کا پتہ لگانے میں کامیاب رہا اور 405 کلومیٹر کے فاصلے پر ٹریک کیا، پھر 300 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر اسے صیاد 4B میزائل کے ذریعے کامیابی سے تباہ کردیا۔

خیال رہے کہ صیاد 4B میزائل کا انجن ہائبرڈ ٹھوس ایندھن سے چلتا ہے اور پہلی بار اس کا آپریشنل ٹیسٹ ہوا ہے۔

اپ گریڈیشن کے بعد نئی پیش رفت نے'باور-373' ایئر ڈیفینس سسٹم کے ڈیٹیکشن ریڈار کی رینج کو 350 سے بڑھا کر 450 کلومیٹر کر دیا ہے جبکہ اس کے ٹریکنگ ریڈار کی رینج 260 سے بڑھ کر 400 کلومیٹر ہو گئی ہے۔

واضح رہے کہ صیاد 4 بی کے کامیاب تجربے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایرانی ایئر ڈیفینس سسٹم کے میزائلوں کی رینج کو 300 کلومیٹر تک بڑھا دیا گیا ہے اور انگیجمنٹ کی بلندی 27 سے بڑھ کر 32 کلومیٹر ہو گئی ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بریگیڈیئر جنرل علیرضا صباحی فرد نے کہا کہ ایران دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو اس نظام کو مقامی طور پر تیار کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جتنے زیادہ خطرات بڑھ رہے ہیں 'باور-373' سسٹم اور دیگر فضائی دفاعی نظام موجودہ خطرات سے آگے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'باور-373' دنیا کے جدید ترین آلات اور ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔

تقریب میں ایران کے وزیر دفاع جنرل آشتیانی نے بھی کہا کہ یہ نظام 6 اہداف کو نشانہ بنانے اور انہیں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک اس طرح کے نظام کی خواہش رکھتے ہیں۔