مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رائٹرز نے خبردی ہے کہ متحدہ عرب امارات نے پیر کے روز ابوظہبی میں یورپی یونین کے سفارتی مشن کے سربراہ کو طلب کیا اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ "جوزف بوریل" کے رواں ہفتے نسل پرستانہ اظہارات کے بارے میں وضاحت طلب کی۔
متحدہ عرب امارات کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے اس بارے میں وزارت خارجہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیانات نامناسب اور امتیازی ہیں اور یہ دنیا بھر میں امتیازی سلوک کی صورتحال کے مزید خراب کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اس سے قبل جوزپ بوریل نے بیلجیئم میں نئی یورپی ڈپلومیٹک اکیڈمی میں اپنی تقریر کے دوران یورپ کو ایک باغ اور دنیا کے بیشتر حصے کو ایک ایسا جنگل قرار دیا جو باغ پر حملہ کر سکتا ہے۔بوریل نے کہا تھا کہ باغبانوں کو باغ کی دیکھ بھال کرنی چاہیے تاہم وہ دیوار بنا کر اس کی حفاظت نہیں کرسکیں گے۔ اونچی دیواروں سے گھرا ہوا ایک چھوٹا سا خوبصورت باغ راہ حل نہیں ہے کیونکہ جنگل میں نشوونما کی مضبوط صلاحیت ہے اور دیوار کبھی بھی باغ کے مناسب نہیں ہوں گی۔
بوریل نے مزید کہا تھا کہ باغبانوں کو جنگل میں جانا چاہیے۔ یورپیوں کو باقی دنیا کے ساتھ بہت زیادہ مڈبھیڑ کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر باقی دنیا ہم پر حملہ کردے گی۔ بوریل کے اظہارات کے بعد ناقدین نے کہا کہ ان کی تقریر نسل پرستی اور ایمپریالزم کی نمائندگی کرنے کے ساتھ ساتھ برتر یورپ کے فرسودہ خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔ یوروپی خبر رساں اداروں نے رپورٹ دی ہے کہ بوریل نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں اپنے اظہارات کے متعلق اس بات کی تردید کی کہ وہ نسل پرستانہ یا نوآبادیاتی اور استعماری تھے اور کہا کہ ان اظہارات کا مقصد "یورپی قلعہ" کے خیال کو مسترد کرنا اور یورپ کو دنیا کے ساتھ تعامل کی ترغیب دینا تھا۔
در ایں اثنا روسی وزارت خارجہ کی ترجمان "ماریا زاخارووا" نے بھی بوریل کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ باغ خود یورپیوں نے ظلم و بربریت اور جنگل کی لوٹ مار سے تعمیر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق خصوصی رپورٹر احمد شہید نے کہا ہے کہ سفارت کاروں کو جوزف کونراڈ کا ناول ہارٹ آف ڈارکنس پڑھنا چاہیے - وہ ناول جو افریقہ میں مغربی سامراج پر ایک نقد ہے۔
خیال رہے کہ پچھلے چند ہفتوں میں یہ دوسرا موقع ہے جب بوریل کے تبصروں نے خبروں میں سرخیاں بنائیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے یورپی یونین کے سفارت کاروں کے اجتماع میں ان پر لاعلمی کا الزام لگایا اور کہا کہ وہ سفیروں سے حاصل کرنے کے بجائے میڈیا اور اخبارات سے بہت سی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ بوریل نے اپنے پچھلے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ یورپی یونین بیانیہ کی جنگ میں، خاص طور پر یوکرین کے معاملے میں میدان ہار چکی ہے اور سفارت کاروں سے سائبر اسپیس پر زیادہ توجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔