مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے حال ہی میں دورہ نیویارک کے دوران نیویارک ٹائمز اخبار کو ایک انٹرویو دیا۔ وزارت خارجہ کی ویب سائٹ نے اس انٹرویو کا متن شائع کیا۔
مہر کے قارئین کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ کے ساتھ نیویارک ٹائمز کے انٹرویو کا متن پیش کیا جارہا ہے:
نیویارک ٹائمز: آپ نے اس ہفتے جوہری معاہدے پر ملاقاتیں کی ہیں۔ آپ کے خیال میں ایٹمی مذاکرات کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟
امیر عبداللہیان: سب سے پہلے تو یہ کہ ہم ایک اچھے، مضبوط اور مستحکم معاہدے تک پہنچنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ ایران کی نئی حکومت میں گزشتہ مہینوں کے دوران میرے نائب اور میرے ساتھیوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے بہت محنت کی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہم اس معاملے کے آخری مراحل میں ہیں تاہم قدرتی طور پر آخری مراحل ایک مشکل راستہ طے کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اگر امریکہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے اور اس مرحلے پر فیصلہ کرنے کی ہمت دکھائے تو ہم سمجھوتے تک پہنچ سکتے ہیں۔ سمجھوتہ پہنچ میں ہے، امریکی فریق نے ہمیں بارہا پیغام دیا ہے کہ سمھجھوتے تک پہنچنے کے لیے مطلوبہ عزم رکھتے ہیں۔ ہم نے مذاکرات کے دوران معاہدے کو تیز کرنے کے لیے بہت زیادہ پہل دکھائی۔ اب امریکی جانب سے پہل اور حقیقت پسندی کا وقت ہے۔ ہم سنجیدہ ہیں۔
نیویارک ٹائمز: کیا عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی سے اس کی تحقیقات کے بارے میں بات چیت کی کوئی گنجائش ہے؟
عالمی جوہری ادارے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو سیاسی رویے اور سیاست بازی سے دور رکھے
امیر عبداللہیان: ایجنسی کے ساتھ ہمارا تعاون جاری ہے، لیکن ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ ایجنسی کو اپنی تکنیکی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں لیکن وہ اکثر سیاسی راستہ اختیار کرتی ہے اور سیاسی رویہ اختیار کرتی ہے۔ ہم ایجنسی کے ساتھ اپنا تعاون تکنیکی طریقے سے مضبوط کر سکتے ہیں لیکن ایجنسی کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو سیاسی رویے اور سیاست بازی سے دور رکھے۔ اگر ایجنسی خالصتاً تکنیکی انداز اپناتی ہے تو ہمیں کوئی شک نہیں کہ ایران کے خلاف الزامات برطرف ہوجائیں گے۔ لہٰذا ہم ایجنسی کے ساتھ مزید تکنیکی تعاون کے لیے تیار ہیں تاہم امریکہ اور تین یورپی ممالک کو مذاکرات میں ایجنسی پر توجہ دینی چاہیے کہ تکنیکی راستے نہ ہٹے۔
نیویارک ٹائمز: آپ کی کیا مراد ہے؟ تکنیکی راستے سے انحراف کی مزید وضاحت کریں؟
امیر عبداللہیان: مثال کے طور پر گزشتہ چار ماہ میں مذاکرات کے دوران اچانک ویانا میں ایک قرارداد پیش کی گئی جو کہ ۲۰١۵ کے ایٹمی معاہدے ﴿JCPOA﴾ کے دائرہ کار میں ہمارے مذاکراتی عملی کی راہ میں غلطی اور انحراف تھی۔ عین اس نازک وقت پر مسٹر رافیل گروسی نے اسرائیل کا سفر کیا اور تل ابیب میں ایک پریس کانفرنس میں اشتعال انگیز اور غیر تعمیری الفاظ استعمال کیے۔ دوسری جانب سے تین یورپی ممالک اور امریکہ مذاکرات کے دوران ایک قرارداد پیش کرتے ہیں جو کہ سیاسی ہے۔ درحقیقت وہ ایجنسی کو اپنے مقاصد کے لیے ایک سیاسی آلہ بنا رہے ہیں اور مسٹر گروسی جان بوجھ کر اپنے سفر کے ساتھ سیاسی رویہ ظاہر کرتے ہیں جبکہ ایجنسی کی ذمہ داری تکنیکی ہے۔
نیویارک ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ گروسی آخر کار سیاسی رویہ اپنائے بغیر تکنیکی بات چیت میں جے سی پی او اے ﴿۲۰١۵ کے جوہری معاہدے﴾ کی مدد کر سکیں گے؟
امیرعبداللہیان: ہمیں یقین ہے کہ اگر مسٹر گروسی اور ان کی ٹیم صرف تکنیکی رویہ اختیار کرے تو ایران پر جو بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں وہ بہت آسانی سے ختم ہو جائیں گے۔ ہم ایجنسی کے تکنیکی سوالات کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم ہم ایجنسی کے سیاسی اور ٹارگٹڈ سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔
ہم جوہری ادارے کے تکنیکی سوالات کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں
نیویارک ٹائمز: آپ 60 فیصد سے زیادہ افزودہ یورینیم کے ذخائر سے کیا کرنا چاہتے؟
امیر عبداللہیان: ویانا میں جس متن پر ہم نے اتفاق کیا تھا اس میں ہم نے اس کی تفصیلات واضح کی ہیں اگر تمام فریق جے سی پی او اے میں کئے گئے اپنے وعدوں پر واپس آتے ہیں تو جے سی پی او اے معاہدے سے باہر ہمارے اضافی یورینیم کے بارے میں بالکل واضح ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہوگا۔
نیویارک ٹائمز: اگر مذاکرات ناکام ہوئے یا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے تو ایران کا ردعمل کیا ہوگا؟ کیا یہ اعلیٰ سطحوں پر مزید افزودگی کرے گا؟
امیر عبداللہیان: ہم نے مذاکرات صرف مذاکرات کے لیے نہیں کیے بلکہ ٹھوس نتیجے تک پہنچنے کے لیے کیے ہیں۔ یہ صورتحال امریکہ اور مسٹر ٹرمپ نے پیدا کی ہے۔ 2015 سے ہمیں جے سی پی او اے سے کوئی اقتصادی فائدہ نہیں ملا ہے۔ یقیناً یہ بھی عجیب بات ہے کہ مسٹر بائیڈن ایک طرف سے ٹرمپ کے طرز عمل کو نہیں مانتے تاہم پابندیوں کے اسی راستے پر گامزن ہیں۔
نیویارک ٹائمز: نیک نیتی کی علامت کے طور پر، کیا قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے کوئی بات چیت ہوئی ہے؟
امیرعبداللہیان: قیدیوں کا تبادلہ بنیادی طور پر ہمارے لیے ایک انسانی مسئلہ ہے۔ ہم قیدیوں کے تبادلے کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔ ایک موقع پر امریکی فریق نے اسے ویانا مذاکرات اور جوہری معاہدے کے نتائج سے مشروط کر دیا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جوہری معاہدہ اور قیدیوں کے انسانی مسئلے کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ہم اس معاملے میں تیار ہیں۔
نیویارک ٹائمز: نیک نیتی کی علامت کے طور پر، اگر ایران کے منجمد اثاثوں کا ایک حصہ جیسے کہ جنوبی کوریا کے پاس موجود ایران کے 7 ارب ڈالر ریلیز کردیئے جائیں تو کیا اسے نیک نیتی کی علامت سمجھا جا سکتا ہے؟
امیرعبداللہیان: امریکہ کی طرف سے دنیا کے کچھ حصوں میں ہمارے مسدود اثاثوں کی بحالی کو ایک مثبت علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم اب ہم امریکہ کے رویے میں ایک پیچیدگی اور الجھاو دیکھتے ہیں۔ ایک طرف سے یورپی یونین کے رابطہ کار کے ذریعے ہمارے پیغامات کا تبادلہ جاری ہے اور ہم سب ایک حل تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف سے امریکہ ایجنسی میں قرارداد پیش کرتا ہے اور ایک اور طرف سے تقریباً ہر تھوڑے عرصے بعد کسی بہانے سے نئی پابندیاں بھی عائد کررہا ہے۔ امریکی فریق فیصلہ کرنے میں چکرا رہا ہے اور یہ امر مذاکرات اور جوہری معاہدے میں کئے گئے وعدوں پر واپس آنے کے لیے تعمیری نہیں ہے۔ امریکہ پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو اس پیچیدہ اور الجھاؤ میں پھنسی ہوئی کنڈلی سے باہر نکالے تاکہ حقیقت کو اچھی طرح دیکھ سکے اور فیصلہ کر سکے۔
نیویارک ٹائمز: کیا ان مذاکرات میں روس کی موجودگی کی وجہ سے یوکرین کی جنگ نے جوہری مذاکرات کی پیچیدگی کو متاثر کیا ہے؟
امیرعبداللہیان: جب جنگ (یوکرین) شروع ہوئی تو مغربی فریقوں نے ہمیں بتایا کہ اس کا مطلب جوہری معاہدے پر منفی اثر ہے۔ میں نے فوراً وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کو فون کیا، میرے خیال میں مسٹر لاوروف غیر ملکی دورے پر تھے۔ کچھ دنوں بعد ہم نے ماسکو میں بات کی اور پریس کانفرنس میں مسٹر لاوروف نے اعلان کیا کہ ہم فریقین کے لیے جوہری معاہدے میں واپسی میں رکاوٹ نہیں ہوں گے اور بنیادی طور پر ماسکو معاہدے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ البتہ لاوروف کی کچھ درخواستیں تھیں لیکن ہم مذاکرات میں اس نتیجے پر پہنچے اور میں صاف کہہ سکتا ہوں کہ اگر امریکہ آج کوئی فیصلہ کر سکتا ہے اور حقیقت پسندانہ طور پر یہ ظاہر کر سکتا ہے کہ وہ کسی سمجھوتے کی تلاش میں ہے تو ہمیں یقین ہے کہ روس سمجھوتے کی حمایت کرے گا جبکہ یوکرین کی جنگ کے بارے میں ہمارا موقف بالکل واضح ہے۔ ہم نے شروع سے ہی یوکرین کی جنگ کی مخالفت کا اعلان کیا ہے اور افغانستان، یمن، عراق اور شام کے بارے میں دوہرا معیار اپنائے بغیر اس پر عمل کیا ہے۔
نیو یارک ٹائمز: ایران نے خود کو اس بات کا پابند سمجھتا ہے کہ وہ کسی بھی متحارب فریق کو ہتھیار نہیں دے گا، کیا یہ سچ ہے؟
امیرعبداللہیان: ہم اس بات کےپابند ہیں کہ ہھتیاروں کی ترسیل نہ ہو۔ کسی بھی فریق کو ہتھیاروں کی ترسیل سیاسی حل کے موقع کو لٹکا دیتا ہے۔ یوکرین کا میدان پیچیدہ ہے۔ مسٹر پیوٹن بھی کچھ دلائل پیش کرتے ہیں اور خاص طور پر نیٹو کی توسیع کے متعلق مسٹر پیوٹن کے خدشات اور بڑی مقدار میں ہتھیار بھی یوکرین کو دیئے گئے ہیں جس نے جنگ کو مزید طویل کر دیا ہے۔ ہم نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کو روکنے کی کوشش کی۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس تنازع کو سیاسی بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے ختم کیا جانا چاہیے۔ اگر یہ جنگ آج ختم ہو جاتی ہے تو عوام اور اس ملک اور خطے کے انفراسٹرکچر کو کم نقصان پہنچے گا۔ یہاں تک کہ غذائی تحفظ کو دیکھتے ہوئے میں نے یوکرین کے وزیر خارجہ سے دو بار کہا کہ اناج کی برآمد کے لیے ایران کا ٹرانزٹ روٹ استعمال کریں۔
نیو یارک ٹائمز: کیا یہ ایرانی ڈرون کی روس کو ترسیل اس بات کی خلاف ورزی نہیں ہے جو آپ نے کہی؟
امیر عبداللہیان: ہمارا روس کے ساتھ دفاعی تعاون ہے اور ہمارے دفاعی تعاون کا یوکرین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم کسی بھی فریق کو یوکرین میں جنگ کے لیے کوئی سہولت نہیں دیں گے۔ افسوس ہےکہ اس حوالے سے غلط پروپگینڈا کیا گیا ہے۔
نیویارک ٹائمز: اگر وہ ایرانی ڈرون استعمال کرنا چاہیں تو کیا یہ عمل دفاعی معاہدے کے مطابق سمجھا جائے گا؟
امیر عبداللہیان: ہم نے روس کو یوکرین میں استعمال کے لیے سہولیات نہیں دیں۔ یوکرین کے مسئلے کا حل صرف سیاسی ہے۔ جس قدر ہم یمنی، افغان اور شامی مہاجرین کے بارے میں پریشان ہیں اتنی ہی ہمیں یوکرین کے مہاجرین کی بھی فکر ہے۔ میرا اپنا ملک جارحیت اور جنگ کی قربانی ہے۔ جب اس پر صدام حسین نے آٹھ سال تک حملہ کیا۔ جب ہم جنگ روکنے کی بات کرتے ہیں تو پورے یقین کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ جنگ راہ حل نہیں ہے اور فریقین کو جلد از جلد اس مسئلے کو مذاکرات کی میز پر حل کرنا چاہیے۔
نیویارک ٹائمز: کیا ایران نے یوکرین کی جنگ میں امن کے لیے اقدامات کیے ہیں یا اس کا حصہ رہا ہے؟
امیر عبداللہیان: میں اس مسئلے کے لیے دو بار ماسکو گیا اور اپنے ہم منصب یوکرین کے وزیر خارجہ سے تقریباً ہر ایک مہینے سے 40 دنوں کے دوران ایک مرتبہ براہ راست اور ٹیلی فون پر رابطہ کرتا رہا ہوں۔ حال ہی میں یورپ کے ایک رہنما نے ایران کے صدر سے کہا کہ ہم روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو جنگ روکنے کے لیے استعمال کریں۔ البتہ فریقین ایک دوسرے پر بات چیت کے لیے تیار نہ ہونے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ میرے خیال میں جنگ حل نہیں ہے اور فریقین کو جلد از جلد مذاکرات کی میز پر اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔
نیویارک ٹائمز: ایران میں فسادات اور پولیس کے رد عمل کے حوالے سے، نہ صرف امریکی قارئین بلکہ پوری دنیا کے قارئین کے لیے ہمیں بتائیں کہ ایران میں کیا ہو رہا ہے؟
امیرعبداللہیان: ایران میں ایک واقعہ ہوا جس نے ہم سب کو غمزدہ کردیا ہے۔ ایک ہم وطن اور ہماری ایک بیٹی کو پولیس نے تھوڑے عرصے کے لیے گرفتار کیا اور تین دن بعد وہ انتقال کر گئی۔ صبح سویرے ہی ہمارے ملک کے صدر کا اس لڑکی کے والد سے فون پر رابطہ تھا۔ عدلیہ، پارلیمنٹ اور حکومت سب کوشش کر رہے ہیں کہ عدالتی تحقیقات کے ذریعے اس واقعے کے مختلف پہلو واضح ہوں۔ ہم تحقیقات اور فرانزک رپورٹ کے نتائج اور اس کیس میں جج کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایسے واقعات دنیا کے کئی حصوں میں ہوتے ہیں حتیٰ کہ امریکہ اور یورپ میں بھی، تاہم ان کے خلاف میڈیا کے عالمی حملے شروع نہیں ہوتے لیکن اس معاملے میں میڈیا، ورچوئل اسپیس اور تمام قوتیں اسے ایک پیچیدہ مسئلے میں تبدیل کرنے اور ملک کے اندر عدم تحفظ اور نا امنی کا باعث بنانے کے لیے متحرک ہوگئے ہیں۔ فطری طور پر اسلامی جمہوریہ ایران احتجاج کو قبول کرتا ہے لیکن اپنے پرامن طریقے سے لیکن اس کے مقابلے میں انتشار، افراتفری، ناامنی اور عدم تحفظ سے منطق کے ساتھ اور مقتدر انداز میں نمٹتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر داخلہ نے موجودہ صورتحال پر رپورٹ پیش کی ہے۔ ہم اس واقعے میں اپنے ملک کے لوگوں کے پاکیزہ جذبات کا احترام کرتے ہیں۔ کسی بھی دوسرے فریق سے زیادہ ہم اس مسئلے کے مختلف پہلووں کو واضح کرنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن ہم غیر ملکی میڈیا اور سیاسی اشتعال انگیزیوں سے اپنے ملک کی سلامتی اور استحکام کو متاثر نہیں ہونے دیں گے۔ البتہ کچھ غیر ملکی میڈیا ہمارے ملک کے لوگوں کے پاکیزہ جذبات بھڑکانے اور ان سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ واقعات دنیا میں کہیں بھی ہو سکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں۔ چونکہ یہ چیزیں امریکہ میں بہت زیادہ ہوتی ہیں اتفاق سے امریکی لوگ اسے اچھی طرح سمجھتے ہیں۔