ویانا میں قائم بین الاقوامی تنظیموں میں روس کے نمائندے نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کی جانب سے ایران کو جوہری مذاکرات کی موجودہ صورتحال کا اصل ذمہ دار ٹہرانے کی کوشش کو غیر منصفانہ قرار دیا اور تاکید کی کہ JCPOA مذاکرات کی موجودہ صورتحال امریکہ کے اندرونی حالات کا نتیجہ ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آسٹریا کے شہر ویانا میں قائم بین الاقوامی تنظیموں میں روس کے نمائندے میخائل الیانوف نے ویانا میں پابندیوں کے خاتمے کے مذاکرات کے بارے میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کے حالیہ بیان کے رد عمل میں تاکید کی کہ موجودہ صورتحال اور مذاکرات میں پیش رفت کا فقدان زیادہ تر امریکہ کی اندرونی صورتحال کی وجہ سے ہے۔

روسی نمائندے نے یہ بات پیر کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہی، ان کا کہنا تھا کہ انگلی اٹھانا (ایران پر الزام لگانا) بظاہر ویانا مذاکرات کے تعطل کی علامت ہے۔ اگر ایسا ہے (اور مذاکرات تعطل کا شکار ہیں) تو یہ مختلف عوامل کا نتیجہ ہے۔

الیانوف نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کی جانب سے ایران کو مذاکرات کی موجودہ صورتحال کی اصل وجہ کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کا حوالہ دیتے ہوئے تاکید کی کہ سارا الزام ایران پر ڈالنے کی کوششیں منصفانہ نہیں ہیں۔

انہوں نے براہ راست امریکہ کا نام لیے بغیر مزید کہا کہ مذاکرات کسی دوسرے شریک کی اندورنی سیاسی صورتحال پر بہت زیادہ منحصر ہو گئے ہیں۔

الیانوف کا یہ بیان  ایک یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کی ایک ٹویٹ کے رد عمل میں سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ہم تعطل کا شکار ہیں، اب ہمیں روک دیا گیا ہے... گزشتہ تجویز، آخری درخواست جو ایران کی طرف سے تھی، قطعی طور پر کسی معاہدے پر زور نہیں دے رہی تھی اور اگر ہمیں آج یہ کہنا پڑے کہ اگر اس ہفتے کچھ ہوا تو میں کہوں گا کہ مجھے ایسا نہیں لگتا۔

جوزف بوریل نے پولیٹیکو میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں بھی کہا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں مذاکرات میں کسی بڑی پیش رفت کی پیش گوئی نہیں کرتے اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سائڈ لائن پر ایران کے صدر کے ساتھ ملاقات بھی پابندیوں کے خاتمے کے مذاکرات کی پیشرفت پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتی۔

واضح رہے کہ امریکہ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں مئی 2018 میں ایران کے ساتھ اس ڈیل کو ترک کر دیا تھا کہ جسے باضابطہ طور پر مشترکہ جامع پلان آف ایکشن (JCPOA) کے نام سے جانا جاتا ہے اور یکطرفہ پابندیاں بحال کر دی تھیں جنہیں معاہدے نے ختم کر دیا تھا۔

گزشتہ سال اپریل میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں معاہدے کو بچانے کے لیے مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوا تھا جب جو بائیڈن نے ٹرمپ کی جگہ لینے کے کچھ مہینوں بعد معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے اور ایران مخالف پابندیوں کو ہٹانے میں واشنگٹن کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

قابل ذکر پیش رفت کے باوجود امریکہ کی فیصلے میں ہچکچاہٹ، غیر مستقل مزاجی اور تاخیر نے مذاکرات کے راستے میں متعدد رکاوٹیں پیدا کیں۔

ایرانی حکام نے بار بار زور دے کر کہا ہے کہ ممکنہ طور پر پابندیاں اٹھانے پر واشنگٹن کو اس بات کی ضمانت دینے کے قابل ہونا چاہیے کہ وہ دوبارہ پابندیاں واپس نہیں لگائے گا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے حال ہی میں کہا تھا کہ اگر امریکی فریق  جوہری مذاکرات کے حوالے سے حقیقت پسندانہ رویہ اپنائے تو معاہدہ ممکن ہے۔