انہوں نے دین کی تکمیل کو ولایت و امامت سے مربوط قرار دیتے ہوئے کہا کہ تکمیلِ دین سے مراد یہ ہے کہ دین کی امامت کا پرچم امام علی علیہ السلام اور ان کے گیارہ بیٹوں کے ہاتھ میں ہے، یہ دین زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے اور روزِ قیامت تک تمام انسانوں کی حاجات کو پورا کرتا رہے گا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے مسجد خاتم الانبیا کوئٹہ میں خمسہ مجالس کی پہلی مجلس سے خطاب کیا۔ انہوں نے دین کی تکمیل کو ولایت و امامت سے مربوط قرار دیتے ہوئے کہا کہ تکمیلِ دین سے مراد یہ ہے کہ دین کی امامت کا پرچم امام علی علیہ السلام اور ان کے گیارہ بیٹوں کے ہاتھ میں ہے، یہ دین زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے اور روزِ قیامت تک تمام انسانوں کی حاجات کو پورا کرتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ دین اسلام کا دائرہ کار محض عبادات تک محدود نہیں، بلکہ اگر ہم محسوس کریں تو ازدواجی زندگی، بچوں کی تربیت، کاروبار، روزمرہ کے معمولات، کسب روزگار، حصول علم حتی کہ دشمنانِ خدا سے بغض اور دوستانِ خدا سے محبت بھی دین کے دائرہ کار میں شامل ہے۔ پس ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ دین کسی فرد کی انفرادی ضروریات کو پورا کرنے کا نام نہیں ہے۔ آیت اکمال (سورہ مائدہ آیت ۳) بھی اسی نکتہ کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اس آیت کے نزول سے قبل نماز، روزہ، حج، زکوۃ، خمس، جہاد وغیرہ کے احکام نازل ہوچکے تھے۔ مذکورہ آیت میں عبادات سے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا بلکہ خداوند متعال کی طرف سے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا اعلان کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز سے لے کر امر بالمعروف و نہی عن المنکر تک یہاں تک کہ تولی و تبری بھی اس وقت قبول ہوں گے جب علی علیہ السلام کی ولایت پر ایمان لایا جائے۔ امام علی علیہ السلام نے ولایت اور حکومت کا جو نظام ہمیں دیا وہ عدل، مساوات اور کرامتِ نفس پر مبنی ہے، لہذا ایک معتدل اور پرامن معاشرہ کے قیام کے لئے علی علیہ السلام کی ولایت کے نظام کا نفاذ ضروری ہے ورنہ عبادات بھی روح سے خالی ہوں گی۔ یہ نظام اور اس کا حاکم دونوں اللہ کی طرف سے متعین کردہ ہیں یعنی اللہ کے نظام پر علی علیہ السلام جیسی شخصیت کو ہی فائز ہونا چاہیے۔