مہر خبر رساں ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے سورہ اسرا کی آیت 33 میں امام حسین اور ان کے اصحاب کے قاتلوں سے سخت اور بڑے پیمانے پر انتقام لینے کے بارے میں بات کی ہے۔
امام حسین کی مصیبت نہ صرف اسلام کی ایک بڑی مصیبت ہے بلکہ زیارت میں وارد ہونے والے روشن بیان کے مطابق آسمانوں اور زمین کی ایک بڑی مصیبت ہے: «مُصِیبَهٍ مَا أَعْظَمَهَا وَ أَعْظَمَ رَزِیَّتَهَا فِی الْإِسْلَامِ وَ فِی جَمِیعِ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْض؛ [۱] کتنی عظیم مصیبت ہے یہ مصیبت، اور کتنی عظیم ہے یہ عزا اسلام میں اور تمام آسمانوں اور زمین میں ۔»
قرآن میں بڑے طغیان کی تعبیر
اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں امام حسین ﴿ع﴾ کی مصیبت کو بڑی انسانی سرکشی کے عنوان سے یاد کیا ہے اور فرمایا: «وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیرًا؛ [۲] اور تم لوگ ایک بڑی سرکشی اور طغیان کا شکار ہو جاؤ گے۔
قرآن کے حقیقی مفسر امام صادق عليہ السلام اس آیت کی تاویل میں فرماتے ہیں:اس آیت میں ظلم اور بڑے طغیان سے مراد امام حسین کو قتل کرنا ہے۔ [۳]
سخت انتقام
حکم اور موضوع کے تناسب کی رو سے چونکہ کربلا میں انجام دیا گیا ظلم اور جرم بہت بہت بڑا تھا اور نا قابل بیان وسعت میں انجام دیا گیا ہے، لہذا اس سلسلے میں خدا کا انتقام بھی بہت سخت اور کڑا ہو گا۔ پروردگار عالم نے قرآن میں اس بڑے انتقام کا ذکر کیا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں سے سخت انتقام
قرآن اس آیت «وَلَا رَطْبٍ وَلَا یَابِسٍ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِینٍ؛ [۴] کوئی تر و خشک نہیں مگر یہ کہ کتاب مبین میں ثبت ہوا ہے » کی نص کے مطابق اپنے اندر کائنات کے تمام حقائق لئے ہوئے ہے۔ قطعا و یقینا سید الشهداء کے خون کے انتقام اور منتقم کا ذکر قرآن میں ہوا ہے کہ جسے راسخون فی العلم سے پوچھنا چاہئے؛ کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے: «وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ؛ [۵] جبکہ قرآن کی تفسیر صرف خدا اور راسخون فی العلم کے سوا کوئی نہیں جانتا۔»
امام صادق علیہ السلام بھی اہل بیت ﴿ع﴾ کو راسخون فی العلم کا مصداق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: «نَحنُ الرّاسِخونَ فِی العِلمِ، ونَحنُ نَعلَمُ تَأویلَهُ؛ [۶] ہم اھل بیت راسخون فی العلم ہیں اور ہم قرآن کی تاویل کو جانتے ہیں۔»
اللہ تعالیٰ سخت انتقام کے بارے میں اس طرح بیان فرماتا ہے: «وَ لا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتی حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِیِّهِ سُلْطاناً فَلا یُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ إِنَّهُ کانَ مَنْصُوراً؛ [۷] اور جس کے خون بہانے کو خدا نے حرام قرار دیا ہے اسے مت مارو مگر صرف حق پر! اور وہ جو مظلومیت کی موت مرے اس کے ولی کےلئے قصاص قرار دیا ہم نے؛ لیکن قتل میں ذیادہ روی مت کریں کیونکہ اس کی حمایت کرنے والا ہے۔»
امام صادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا: یہ آیت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اسی طرح حضرت کے ولی دم اور منتقم ہم اھل بیت کے قائم(امام زمانہ) ہیں۔ [۸]
قاتلینِ امام حسین علیہ السلام کے ھمفکرافراد سے انتقام
جس انتقام کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وعدہ دیا ہے اس کی وسعت نہ صرف امام حسین علیہ السلام کے قاتلین کو شامل ہوتی ہے بلکہ ان کے ہمفکر افراد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گا۔ [۹]
ابن صالح ھروی کہتا ہے: میں نے امام علی ابن موسی الرضا کی خدمت میں عرض کیا: اے فرزند رسول اس روایت کے بارے میں جو امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ جس میں آپ فرماتے ہیں: جب حضرت قائم عجل اللہ فرجہ خروج کریں گے، امام حسین کے قاتلوں کے بچوں کو ان کے باپ کے کردار کی وجہ سے ماریں گے؛ آپ کیا فرماتے ہیں؟ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا حقیقت یہی ہے۔ میں نے عرض کیا: پھر خدا کے اس فرمان کے کیا معنی ہیں کہ جس میں خدا فرماتا ہے: «وَ لا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْری؛ [۱۰] کوئی بھی کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔»
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: خدا اپنے تمام اقوال میں صادق ہے؛ لیکن امام حسین علیہ السلام کے قاتلین کے بچے اپنے باپ کے کردار و افعال پر راضی ہیں اوراس پر فخر کرتے ہیں اور اس اصول کے مطابق کہ " جو کسی چیز پر راضی ہو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے اسے انجام دیا ہے۔" امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کے بچے بھی آپ کے قاتلوں کی طرح ہیں۔ اگر کوئی شخص مشرق میں مارا جائے اور دوسرا مغرب میں راضی اور خوشنود ہو، خدا کے نزدیک قتل پر راضی ہونا قتل کے برابر ہے، حضرت قائم ﴿عج﴾ جب خروج کریں گے تو ان لوگوں کو ماریں گے۔ [۱١]
حوالہ جات:
[۱] مفاتیح الجنان، زیارت عاشورا.
[۲] سوره اسرا، ۴.
[۳] کافی، ج ۸، ص ۲۰۶.
[۴] سوره انعام، ۵۹.
[۵] آل عمران، ۷.
[۶] کافی، ج ۱، ص ۲۱۳.
[۷] سوره اسرا، ۳۳.
[۸] البرهان فی تفسیر القرآن، ج ۳، ص ۵۳۰.
[۹] ترجمه کامل الزیارات، ص ۱۹۴.
[۱۰] سوره انعام، ۱۶۴.
[۱۱] علل الشرائع، ج ۱، ص ۲۲۹.