مہر خبر رساں ایجنسی، پولیٹیکل ڈیسک۔ محمد مہاجرانی: ویانا گزشتہ ہفتے ایک مرتبہ پھر ایران اور پانچ عالمی طاقتوں کے مابین مذاکرات کا گواہ رہا اور گزشتہ کچھ مہینوں کے وقفے کے بعد ایک مرتبہ پھر پیلس کوبرگ ہوٹل کے مالک کی کمائی عروج پر اور ہوٹل کے سامنے صحافیوں کے خیمے نصب ہوگئے۔
مذکرات کا یہ دور مثبت پیش رفتوں کا حامل تھا تاہم بدستور ایسے سمجھوتے سے جو ایرانی قوم کے مطالبات پورے کرے، تھران سے واشنگٹن کے فاصلے جتنی دوری پر ہے۔
اگرچہ یہ راستہ ایران کی جانب سے ہمیشہ ہموار رہا ہے اور ابھی تک ایرانی مذاکرات کاروں نے مختلف اوقات میں حل پیش کر کے سفارتی عمل کو بند گلی میں پہنچنے سے روکا ہے لیکن دوسری طرف امریکہ نے جو موجودہ صورتحال کی اصلی وجہ اور معاہدے سے نکل کر ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے کا اصلی ملزم ہے، ہمیشہ اپنے دھونس پر مبنی موقف پر اصرار کیا ہے۔
بایڈن، ٹرمپ کی راہ پر گامزن!
امریکہ کے یہ زور زبردستی پر مبنی موقف ایسے وقت میں ہر روز دھرائے جاتے ہیں کہ ان کے صدر نے ۲۰۲۰ میں صدارتی انتخابات جیتنے سے پہلے جوہری معاہدے میں واپسی پر زور دیا تھا تاہم اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ ٹرمپ کی اسی راہ پر گامزن ہیں۔
ایسے وقت میں کہ جب سمجھوتے کے تقریباً اعلان کا وقت تھا، اچانک امریکہ کی جانب سے نئے مطالبات کے نتیجے میں مذکرات معطل ہوگئے اور اس کے بعد یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے تہران کا دورہ کیا۔ اس دورے کے بعد اتفاق کیا گیا کہ مذاکرات دوبارہ شروع کئے جائیں اور اسی بنیاد پر دوحہ ایران اور امریکہ کے مابین غیر مستقیم اور بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور شروع ہوا۔ ایران نے مذاکرات کو مثبت قرار دیا جبکہ امریکہ نے دعوی کیا کہ ایران جوہری معاہدے سے بڑھ کر مطالبات کر رہا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے امریکہ کے اس دعوے کی تردید کی تھی۔
سینیئر ایرانی مذاکرات کار، باقری: گیند اب امریکہ کے پالے میں ہے اب اسے پختگی دکھانا ہوگی
آگے چل کر مذاکرات کا دوسرا دور ویانا میں شروع ہوا۔ ایرانی مذاکراتی ٹیم کے سینیئر مذاکرات کار علی باقری نے روانگی سے پہلے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ میں لکھا کہ مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لئے ویانا روانہ ہو رہے ہیں۔ ذمہ ان کے اوپر ہے جنہوں نے معاہدہ توڑا تھا اور گزشتہ کی منحوس میراث سے دوری اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
انہوں نے تاکید کی کہ امریکہ کو اس موقع کی قدر کرنی چاہئے کہ جو جوہری معاہدے کے ارکان کی سخاوت سے فراہم ہوا ہے۔ گیند ان کی زمین میں ہے تا کہ اپنی پختگی کا مظاہرہ کر کے ذمہ دارانہ عمل کریں۔
مذاکرات کے اس دور میں چین اور ورس کے وفد کے سینیئر نمائندے بھی موجود تھے لیکن پورپی وفود کی طرف سے صرف عام ارکان موجود تھے۔
یہ مذاکرات ۵ دن تک جاری رہے اور درنہایت مذاکرات میں طرفین کے مابین رابطہ کار انریکے مورا کی جانب سے مجوزہ تجاویز پیش ہونے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئے۔
مذاکرات ختم ہونے پر ایرانی وزیر خارجہ امیر عبد اللہیان نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل سے ٹیلیفونک گفتگو کی۔ ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایرانی مذاکرتی وفد سمجھوتے کے حصول کے لئے مصمم عزم اور ارادے کے ساتھ ویانا میں حاضر ہوا تھا اور بقیہ مسائل کے بارے میں تعمیری تجاویز پیش کی ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام فریق سمجھوتے کے حتمی مسودے تک پہنچنے کے لئے اپنے عزم اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے۔
جوزف بوریل: حالیہ مذاکرت میں پیش رفت حاصل ہوئی
بوریل نے بھی اس ٹیلیفونک رابطے میں واضح کیا کہ ان کے خیال میں ویانا میں مذاکرات کے حالیہ دور میں نستباً پیش رفت حاصل ہوئی ہے اور مذاکرات کے حوالے سے میری رائے مثبت ہے۔ ہم رابطہ کار کی حیثیت سے اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گے۔
بین الاقوامی مسائل کے تجزیہ نگار مصطفی خوش چشم کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مغرب ایران کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا محتاج ہے چونکہ یوکرین جنگ کی وجہ سے یورپی مارکیٹ میں قیمتوں اور ایندھن کی فراہمی کی صورتحال سنگین حد تک پہنچ چکی ہے جبکہ اگلے مہینے سے موسم خزاں کے ایندھن کی پیشگی خرید کا عمل شروع ہونے والا ہے اور قیمتوں میں بڑھاو ان حکومتوں کے لئے مشکلات کھڑی کرے گا۔ اس اعتبار سے وہ زیادہ سے زیادہ دباو ڈال کر ایسے سمجھوتے کو یقینی بنانا چاہتے ہیں جس میں ایران کی شرائط کا خیال نہ رکھا گیا ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم جب دوحہ مذاکرات میں گئے تھے تو امریکی سمجھ گئے تھے کہ اسلامی جمہوریہ ایران پسپائی نہیں دکھائے گا۔
جب بھی ڈیڈلائنز کو نظر انداز کیا گیا ہم نے بنیاد پوائنٹس حاصل کئے!
بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار محمد مرندی کہتے ہیں کہ بارہا عوام کے حقوق اور ملک کے طویل مدتی مفادات کے لئے کھوکھلی دھمکیوں اور ڈیڈ لائنز کو نظر انداز کیا ہم نے بنیادی پوائنٹس حاصل کئے ہیں۔ جب تک مذاکرات کے نتیجے میں تیار ہونے والا مسودے کا جب تک تہران میں باریکی سے جائزہ نہ لیا جائے مذاکرات کرنے والے حکام اس کے بارے میں کسی قسم کی رائے کا اظہار نہیں کرسکتے۔
مذاکرات میں چین کا نمائندہ: امریکہ فی الفور اپنا سیاسی فیصلہ کرے
چینی مذاکراتی وفد کے سربراہ نے بھی امریکہ سے مطالبہ کیا کہ فی الفور اپنا سیاسی فیصلہ کرے جبکہ ویانا مذاکرات کا دوبارہ شروع ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اختلاف پر گفتگواور مذاکرات کے ذریعے پل قائم کرنا ہی ایران کے جوہری معاملے کا واحد راہ حل ہے۔
روسی سینیئر مذاکرات کار میخائیل اولیانوف نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ میں لکھا کہ یہ باتیں حتمی باتیں نہیں لگتیں۔ فیصلے جوہری معاہدے میں شامل ملکوں کے دارالحکومتوں میں کئے جائیں گے۔ وہ فیصلے کریں گے۔
ان دو سینیئر سفارتکاروں کے اظہارات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر امریکہ مجوزہ مسودے میں ایرانی قوم کے نفع میں مطلوبہ اصلاحات کو قبول کر لے تو سمجھوتہ پہنچ سے دور نہیں ہوگا۔
امیر عبد اللہیان: ایران اور ایرانی کے سامنے دھونس و دھمکی کی زبان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا
گزشتہ روز حسین امیر عبد اللہیان نے ایک ٹویٹ میں امریکہ کے زور زبردستی والے موقف کی طرف ایک مرتبہ پھر اشارہ کیا اور کہا کہ وائٹ ہاوس کو یاد دلانا ہوگا کہ ایران اور ایرانی کے سامنے دھونس و دھمکی والی زبان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ اس وقت یورپی اپنے نظریات کو انریکے مورا کی تجاویز کی شکل میں ایران پر تھوپنا چاہتے ہیں اور ایران کے اصلی مطالبات پر ان کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ اس اعتبار سے اگر مورا کا پیش کردہ مسودہ مثبت پہلووں کا حامل بھی ہو تو ہرگز وہ مسودہ نہیں ہے جس میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے ایران کی تمام شرائط اور مطالبات کا خیال رکھا گیا ہو اور بلاتردید اس کو پرکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے یعنی لازم ہے کہ اسے ایرانی قوم کے مفادات کے حصول کی راہ میں اپ گریڈ کر کے تشکیل نو کے مرحلے سے گزارا جائے۔