مہر نیوز ایجنسی؛ بایڈن نے غاصب صیہونی حکومت کے مرکز تل ابیب سے جدہ جاتے وقت کہا کہ وہ ایسے پہلے امریکی صدر ہیں جو مقبوضہ فلسطین سے براہ راست سعودی عرب جا رہے ہیں۔
تل ابیب سے ریاض تک بایڈن کے اس سفر کا مقصد غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کی قباحت و کراہت کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ بایڈن کے اس دورے سے قبل گزشتہ روز سعودی عرب نے غاصب ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی باضابطہ بحالی کے تناظر میں صیہونیوں کی غیر فوجی پروازوں کے لئے اپنے فضائی حدود کھولنے کا اعلان کیا تھا۔
بایڈن کے دورۂ تل ابیب اور پھر اسکے بعد دورۂ جدہ پر علاقائی عوام اور فلسطین کی طرف سے منفی ردعمل سامنے آیا ہے۔
ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے اپنے صوبہ کرمانشاہ کے دورے کے دوران ایک عوامی جلسے سےخطاب کے دوران کہاکہ تعلقات کی بحالی اسرائیل کے لئے سلامتی کی ضامن نہیں ہوگی اور آج اسلامی ممالک ہر زمانے سے زیادہ طاقتور ہے اور امریکہ کو ہر زمانے سے زیادہ کمزور سمجھتے ہیں۔
انہوں نے خطے میں امریکی فوجی مداخلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: خطے کی مسلمان قومیں اپنے ملکوں میں امریکہ کی مداخلت سے بے زار ہیں چونکہ امریکی فوجی مداخلت بحران اور ناامنی پیدا کرتی ہے۔ صہیونی ریاست جان لے کہ خطے پر حریص نظریں نہ رکھے اور خطے کی سطح پر تعلقات کی بحالی اس کے لئے سلامتی کی ضامن نہیں ہوگی۔
فلسطین لبریشن فرنٹ کے سربراہ احمد خریس نے ایران پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بایڈن کے اس سفر سے عرب اقوام کی ویرانی و تاراجی کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ محمد صادق فضلی نے بھی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ بایڈن کے اس شیطانی سفر کا تلخ نتیجہ فتنہ پروری، جنگ، برادر کُشی، خون خرابا اور سازش ہے۔
اسی طرح عراق کے مسلم علماء کی یونین کے سربراہ نے اجلاسِ ریاض کا جائزہ لینے کے لئے عراقی پارلمنٹ کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاض میں منعقد ہونے والے اجلاس 4 کروڑ عراقیوں کو خطرے میں ڈال دے گا۔ یاد رہے کہ اجلاسِ ریاض امریکی صدر اور بعض عرب سربراہان اور صہیونی حکام کی باہمی شرکت کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔
فلسطین کی اسلامی مزاحتمی تنظیم حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے جوبایڈن کے مقبوضہ علاقوں کے دورے پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے زور دیا: صہیونی ریاست کو خطے میں ضم کر کے اس کی نئے سرے سے نقشہ بندی کرنے کے لئے امریکی حکومت کی کوششیں ناکام رہیں گی۔
انہوں نے کہاکہ امریکی حکومت اس کوشش میں بھی ہے کہ غاصب صہیونی ریاست اور بعض عرب ممالک کے درمیان اتحاد تشکیل دے کر تل ابیب کے لئے سیکیورٹی فراہم کرے تاہم ان کی یہ کوششیں بھی کوئی نتیجہ نہیں دیں گی، کیونکہ یہ بات خطے کی اقوام کے عزم و ارادے اور ان کی فکری اور تہذیبی ورثے کے برخلاف ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اعلان کیاکہ بایڈن اور لاپیڈ کے اسرائیل کی سلامتی کی حفاظت اور اس کی عسکری برتری کے لئے امریکی وعدوں کے اعادے پر مبنی مشترکہ اعلامیے کا نشانہ عربی اور اسلامی ممالک ہیں۔
ایران کی مسلح افواج کے سینئر ترجمان لیفٹیننٹ جنرل ابوالفضل شکارچی نے جوبایڈن کے ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کے دعووں پر اپنا رد عمل دیتے کہا: امریکہ کا مفلوک الحال صدر اور ناجائز صہیونی ریاست کے بے بس وزیر اعظم کی جانب سے طاقت کے استعمال کی تعبیر کو ہم نفسیاتی جنگ اور ان کی حسب سابق توہم پرستی کے کھاتے ڈال رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ آل سعود مخالف صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے معاملے نے بایڈن کے دورۂ جدہ پر بڑے سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔ ماضی میں امریکی صدر جوبایڈن اپنی انتخابی مہم کے دوران خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے سلسلے میں ریاض حکومت بالخصوص ولیعہد بن سلمان کو سخت ہدف تنقید بناتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات محدود کرنے کی بات کر چکے ہیں مگر اب وہ اپنے سابق موقف سے پسپائی اختیار کرنے کے بعد سعودی حکام سے دوستانہ ماحول میں ملاقات کے لئے جدہ پہنچ چکے ہیں جہاں ایئرپورٹ سے محل پہنچنے پر خود ولیعہد بن سلمان نے اُن کا استقبال کیا ہے۔