مہر نیوز ایجنسی نے عالمی میڈیا سے نقل کیاہےکہ امریکہ کے اقوام متحدہ میں سابق سفیر اور مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے گزشتہ برس ٹرمپ کے حامیوں کے کیپیٹل ہل پر حملے سے متعلق کانگریس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کئی انکشافات کیے ہیں۔
جان بولٹن نے اس حوالے سے تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ مزید تفصیلات میں نہیں جارہا لیکن میں نے اس دوران دیکھا کہ ایک اپوزیشن کو منتخب صدر کو غیر قانونی طور پر ہٹانے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔
خیال رہے کہ 2019 میں جان بولٹن نے قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے وینزویلا کے اپوزیشن لیڈر جوآن گائیڈو کی ملک کے صدر نکولس مدورو کو ہٹانے کی کوششوں کی حمایت کی تھی۔وینزویلا میں صدر مدورو کو اقتدار سے ہٹانے کی اپوزیشن کی کوششیں ناکام رہی تھیں اور منتخب حکومت کے خلاف سازش کرنے پر دو سابق امریکی فوجیوں ایرون بیری اور لیوک ڈینمن کو گرفتار کر کے دہشت گردی کا مقدمہ بھی چلایا گیا تھا۔
یاد رہے کہ کئی ممالک کی منتخب حکومت کے خاتمے پر انگلیاں امریکہ کی جانب اٹھتی رہی ہیں تاہم یہ پہلی بار ہے کہ کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار نے کھلے عام رجیم چینج کا اعتراف کیا ہو۔
جان بولٹن کے اس اعتراف کے بعد سوشل میڈیا پر خارجہ پالیسی کے ماہرین نے 1953 میں ایرانی وزیر اعظم محمد مصدق کی معزولی اور ویتنام کی جنگ، افغانستان اور عراق میں امریکی کے کردار پر کڑی تنقید کی۔