مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے جاہل ، نادان اور سفاک حکام نے منی میں جس ہولناک اور سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے تاریخ اسلام اسے کبھی فراموش نہیں کرےگی، منی کے المناک واقعہ میں سعودی حکام کی بربریت اور سفاکیت اس وقت مزید نمایاں ہوگئی جب انھوں نے زمین پر پڑے بیہوش اور جاں بحق حاجیوں کو بلڈوزروں کے ذریعہ اٹھا کر کنٹینروں میں ڈال دیا اورجو حاجی زندہ رہ سکتے تھے انھیں بھی موت کی نیند سلا دیا۔ سعودی حکام نے اپنے اس وحشیانہ عمل کے ذریعہ ثابت کردیا کہ ان کے نزدیک انسانی جانوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں اور انھوں نے اپنے اسلاف اور کفار کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے زندہ حاجیوں کو بھی موت کے گھاٹ اتاردیا ، سعودی عرب کے حکام کا رویہ کفار قریش جیسا رویہ ہے سعودی رویہ میں اسلامی رفتار کی کوئی علامت موجود نہیں انھوں نے اللہ کے مہمانوں کو جس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ کچلا ، اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ۔ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کے حکام نے منی کے حادثے میں شہید ہونے والے حاجیوں کی لاشوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے انھیں بلڈوزروں کے ذریعہ کینٹینروں میں پھینکا اور یہی وجہ ہے کہ اس حادثے میں وہ افراد بھی شہید ہوگئے جنھیں آسانی کے ساتھ بچایا جاسکتا تھا۔ اور لاپتہ ہونے والے افراد کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ سعودی حکام نے اللہ کے مہمانوں پر کسی بھی قسم کا رحم نہیں کیا اور جو حاجی زندہ بچ سکتے تھے انھیں بھی بلڈوزروں کے ذریعہ اٹھا کر کنٹینروں میں پھینک کر موت کی نیند سلا دیا ،جس کی وجہ سے شہید ہونے والے افراد کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوگیا ہے۔ البتہ سعودی حکام اپنے سنگین جرائم کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور وہ اس سلسلے میں اپنے تمام وسائل استعمال کررہے ہیں لیکن اللہ تعالی ان کے تمام جرائم کو برملا کردےگااور ان کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دےگا۔آل سعود کو اللہ تعالی نے آج دنیا میں ذلیل اور رسوا کردیا ہے اور آل سعود کا حشر بھی ویسا ہی ہوگا جیسا اس سے قبل عرب ڈکٹیٹر حکام کا ہوچکا ہے۔
شہدائے منی کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے ابھی 20 کنٹینرز ایسے ہیں جن سےابھی لاشوں کو نکالنا باقی ہے جبکہ سعودی حکام شہداء کی صحیح اور دقیق تعداد بتانے سے گریز کررہے ہیں اورمنی کے شہداء کو اجتماعی قبروں میں دفن کرکے معاملے کو بالکل صاف کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ باخبـر ذرائع کے مطابق منی کے شہیدوں کی تعداد 5000 تک پہنچ سکتی ہے بہت سے حجاج کرام اب بھی لاپتہ ہیں۔