مہر خبررساں ایجنسی کے ثقافتی اور فکری شعبہ کے نامہ ںگار کے ساتھ گفتگو میں ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ثقافتی کونسلر محمد علی ربانی نے کہا ہے کہ ایران اور ہندوستان کے درمیان ثقافتی تعلقات کی تاریخ بہت طویل ہے اور آج بھی ایرانی تخلیقات بالخصوص مزاحمت پر مبنی فارسی اشعار کے ہندوستان میں بہت سے طرفدار اور مداح موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں ایسے تاریخی آثار اور شواہد موجود ہیں جو ایران اور ہندوستان کی دو قوموں کے درمیان گہرے اور عمیق تعلقات کا مظہر ہیں۔ ہندوستان میں کئی صدیوں تک فارسی زبان کا فروغ دونوں قوموں کے ثقافتی اشتراک کا مظہر ہے۔
محمد علی ربانی نے مہر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ ایران اور ہندوستان کے تعلقات تاریخ میں قوموں کے درمیان تعلقات اور باہمی روابط کی ایک کامیاب اور بااثر مثال ہیں۔یہ تعلقات 2 ہزار سالہ تاریخ پر محیط ہیں۔ اور ایرانی اور ہندوستانی اپنے آپ کو ایک ہی نسل اور خون اور بھائی سمجھتے ہیں۔
انھوں نے ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہے کہ یہ تعلقات اور باہمی تعامل بنیادی طور پر دو طرفہ ثقافت پر مبنی رہے ہیں ، اور ایرانیوں اور ہندوستانیوں نے پوری تاریخ میں اپنے تہذیبی عناصر کی تشکیل اور ترقی میں ثقافت پر مبنی تعامل کی تشکیل کے ذریعے ایک قسم کی مشترکہ کوشش کی ہے۔ اگرچہ آج کے دور میں ایران اور ہندوستان کے تعلقات میں ماضی کی نسبت کمی آئی ہے ، لیکن اس کے باوجود آج بھی ہندوستان کو ایرانی ثقافت کا ایک زندہ میوزیم سمجھا جاتا ہے۔ایران کی بیرون ملک ثقافتی سرگرمیوں میں ہندوستان کو خاص اہمیت اور ترجیح حاصل ہے۔ آج بھی دونوں ممالک ثقافتی فروغ میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
محمد علی ربانی نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی معاہدوں کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ خوش قسمتی سے ، ایران اور ہندوستان کے درمیان دو طرفہ ثقافتی ، تعلیمی اور سائنسی معاہدوں اور دستاویزات کا ایک مجموعہ موجود ہے ، دونوں ممالک ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور تعلیمی معاہدوں کی بنیاد پر تعاون کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ دونوں ممالک کی ثقافتی ظرفیتوں سے بھر پور استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
دہلی میں ایران کے ثقافتی کونسلر نے گذشتہ ایک برس میں ہندوستان میں ثقافتی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر چہ کورونا وائرس کی وجہ سے دیگر معاملات کی طرح ثقافتی امور اور ثقافتی سرگرمیوں پر بھی فرق پڑا ہے ہندوستان میں ثقافتی سرگرمیوں کے لئے بہت بڑا اور وسیع میدان موجود ہے۔ ہم نے گذشتہ برس میں ثقافتی اور تعلمی اداروں کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے اور ادبی اور شعری مواد کو نشر کرنے کے سلسلے میں تلاش و کوشش کی۔
دہلی میں ایرانی ثقافتی کونسلر نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں فارسی زبان میں فعال یونیورسٹیوں کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کسی دور میں ہندوستان میں فارسی زبان کا بول بالا تھا آج فارسی زبان کے مقام میں کافی کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود ہندوستان کے تعلیمی اور ثقافتی مراکز میں فارسی زبان کو دوسری پوزيشن حاصل ہے۔ ماضی قریب میں ہندوستان میں 60 یونیورسٹیوں میں فارسی زبان میں ماسٹر اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری تک تدریس ہوتی تھی جو آج کم ہو کر 49 یونیورسٹویں تک پہنچ گئی ہے۔
محمد علی ربانی نے ایرانی شعرا سعدی اور حافظ کے بارے میں اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر ، جب ہم فارسی زبان ، شاعری اور ادب کے بارے میں بات کرتے ہیں ، ہندوستان لازمی طور پر فارسی زبان کا اہم حصہ ہے۔ ہندوستان میں فارسی شعرا کے بغیر فارسی ادب اور شاعری کی تاریخ ادھوری ہوگی۔
چونکہ ہندوستانی طرز فارسی ادب اور شاعری کے اسلوب اور تاریخ کا ایک لازمی جزو ہے ، ہندوستان نے فارسی شاعری کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کے علاوہ ہندوستانیوں نے دنیا کو فارسی ادب سے متعارف کرانے اور شائع کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایران کے عظیم شاعروں جیسے حافظ ، سعدی ، فردوسی ، رومی ، خیام وغیرہ اور اسی طرح ہندوستان کے عظیم شاعروں جیسے بے دل دہلوی، امیر خسرو دہلوی، غالب اور سیکڑوں دوسرے عظیم شاعروں نے فارسی تاریخ اور ادب کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور ہندوستانیوں نے ہمیشہ فارسی زبان کو اپنی ثقافت ، تاریخ اور ادب کا حصہ سمجھا ہے اور اسے پھیلانے کی کوشش کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ماضی قریب میں ہندوستان کی بعض یونیورسٹوں میں ایرانی اساتید بھی فارسی پڑھانے میں مشغول رہے ہیں لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے آج کل مقامی اساتید ہی فارسی تدریس میں مشغول ہیں۔
محمد علی ربانی نے مہر کے ساتھ گفتگو میں ہندوستان میں خطی اور مکتوب نسخوں کی تعداد کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان دنیا میں مکتوب اور خطی نسخوں کا بہت بڑا اور عظيم مرکز ہے جہاں کئي ملین خطی نسخے موجود ہیں اور یہ خطے نسخے قومی کتابخانوں، یونیورسٹیوں ، دینی مدارس ، تاریخی اور ثقافتی مراکز میں محفوظ اور موجود ہیں۔
محمد علی ربانی نے ہندوستان میں مذہبی تکثر کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان مختلف اور گونا گوں مذاہب اور ثقافتوں کا گہوارہ ہے جنمیں بےشمار مشترکات بھی پائے جاتے ہیں۔
دہلی میں ایران کے ثقافتی کونسلر نے ایرانیوں اور ایرانی ثقافت کے بارے میں ہندوستانی عوام کے نظریہ کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی عوام کے ذہن میں ایران کے بارے میں مثبت سوچ اور تصویر موجود ہے جو ایک بہت بڑا سرمایہ ہے اورایران کے رقبا خاص طور پر امریکہ اس مثبت سرمایہ کو تخریب کرنے کی تلاش و کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ ایران کے ثقافتی امور کی ہندوستان کی نئی نسل کے ذہنوں میں مثبت تصویر باقی رکھنے کی تلاش و کوشش جاری ہے۔ ہندوستان میں ایران اور ہند کی مشترکہ ثقافت کو مغربی ممالک کے میڈیا چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔۔
انھوں نے ہندوستان میں ایران کی ثقافتی موجودگي کے استمرار کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور ہندوستان کی مشترکہ ثقافت کے استمرار اور اس کی حفاظت کے سلسلے میں تلاش و کوشش جاری ہے۔ ہندوستان میں ایرانی و اسلامی ثقافت کا عظیم الشان سرمایہ موجود ہے ۔ ہندوستان میں ایرانی شعرا کا بہت بڑا سرمایہ ہے جس کی حفاظت اور استمرار کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ ایران اور ہندوستان کے درمیان مثبت سوچ ، فکر اور تصویر کو فروغ دینا چاہیے اور ماضی کے کامیاب تجربوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ ہندوستان اور ایران کے دوستانہ، تاریخی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے کے سلسلے میں کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
آپ کا تبصرہ