مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ویب سائٹ "یمن نیوز" نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے: دمشق میں مسلح دہشت گردوں کے قبضے اور بشار الاسد کی رخصتی کے ساتھ ہی اس ملک میں ایک نئی حکومت وجود میں آگئی ہے جسے امریکہ، صیہونی حکومت اور بعض مسلم اور عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
مذکورہ ویب سائٹ کی اس رپورٹ میں شام میں ہونے والی پیش رفت اور مستقبل کے افق کا جائزہ لیا گیا ہے۔
یمن نیوز نے مزید لکھا ہے کہ دمشق کے سقوط کے ساتھ ہی مختلف فرقہ وارانہ اور علیحدگی پسند دھاروں سے تعلق رکھنے والے 46 مسلح گروہ میدان میں اتر چکے ہیں، جن میں سے ہر ایک غیر ملکی قوتوں یعنی ترکی، امریکہ، روس اور یہاں تک کہ صیہونی رجیم کی نمائندگی کر رہا ہے۔
تاہم ادلب اور حلب میں شروع ہونے والی جھڑپوں نے ثابت کیا کہ ان گروہوں کے درمیان تنازعات موجود ہیں۔ یہ جھڑپیں فری سیرین آرمی کے عناصر اور ترکی سے وابستہ اخوانی گروہوں اور امریکی حمایت یافتہ کرد علیحدگی پسند گروپ "QSD" کے درمیان ہوئیں۔
شام کے جغرافیائی میدان میں بھی درجنوں گروہ ایسے ہیں جنہوں نے اس ملک کے کچھ حصوں میں اپنا تسلط بڑھا لیا ہے۔ ایک طرف کرد علیحدگی پسند گروپ مشرقی شام میں موجود ہے، جو میڈیا رپورٹس کے مطابق شام کے 40 فیصد علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ جب کہ شام کے جنوب میں، جنوبی آپریشن روم کمانڈ اور شمالی علاقوں میں، مشترکہ آپریشنز کمانڈ کا گروپ ہے، جن میں سے ہر ایک اپنا الگ جغرافیائی منصوبہ رکھتے ہیں۔
یمن نیوز کے مطابق میڈیا اور پروپیگنڈہ وار کے میدان میں امریکہ نے دہشت گرد گروہوں کے سرغنہ ابو محمد الجولانی کو نمایاں کر کے اسے حکمران بنا دیا جب کہ اس شخص کی مخبری پر خود امریکہ نے ایک کروڑ ڈالر سے زائد کا انعام مقرر کیا تھا اور آج شام میں اس شخص کی حکمرانی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے وسیع پیمانے پر میڈیا مہم چلا رہا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ انہوں نے امریکی چینل سی این این پر اپنی پہلی میڈیا گفتگو میں یہ وعدہ کیا کہ وہ شام کے مفادات کی حمایت کے لیے امریکہ کے ساتھ اتحاد کریں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکہ شام کی صورت حال کو پس پردہ اپنے مہروں (جولانی گروپ) کے ذریعے کنٹرول کرنا چاہتا ہے اسی لئے وہ دوحہ اور آستانہ معاہدوں کو پس پشت ڈال کر اس ملک میں ایک نئی کٹھ پتلی حکومت لانے کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔