ضلع کرم سے ممبر قومی اسمبلی انجینئر حمید حسین کہا ہے کہ کرم ایجنسی کا روڈ محفوظ کیا جائے اور غیر مقامی افراد کی جگہ روڈ کی سیکورٹی مقامی اہلکاروں کے حوالے کی جائے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں پاراچنار سے پشاور جانے والے مسافروں کے قافلے پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں اب تک خبروں کے مطابق 45 افراد شہید ہوگئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

دہشت گرد حملے کے بعد عوام اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔ ضلع کرم سے ممبر قومی اسمبلی اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے پارلیمانی لیڈر انجینئر حمید حسین مہر نیوز کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے دہشت گرد واقعے کی شدید مذمت کی اور راستے کی سیکورٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے بھی ایک واقعہ ہوا تھا جس میں اسی طرح اہل سنت برادری کے قافلے پر اٹیک ہوا تھا۔ واقعے میں دس سے بارہ لوگ شہید ہوگئے تھے جن میں بچے اور عورتیں بھی تھیں۔ اس وقت بھی آگے پیچھے سیکیورٹی تھی۔ اس کے باوجود جو ہونا تھا ہو گیا۔ کل کے واقعے میں بھی قافلے پر سیکورٹی کی موجودگی میں اٹیک ہو جاتا ہے اور سیکیورٹی کے ایک بندے کو بھی خراش نہیں آتا اور 45 بندے شہید کیے جاتے ہیں۔ جو حفاظت کے لیے ان کے ساتھ آئے تھے، ان کو کچھ نہ ہونا سوالیہ نشان ہے۔ یہاں لوگ یہی پوچھ رہے ہیں کہ سیکورٹی میں لوگ آرہے ہیں، سیکیورٹی ساتھ ہے اور لوگ مر رہے ہیں جبکہ سیکورٹی اہلکاروں میں سے کسی کو کچھ نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ سکیورٹی دستوں میں فوج اور ایف سی دونوں کے اہلکار تھے۔ اتنے بڑے قافلے کو مختصر سیکورٹی میں بھیجنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں کافی عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ لوگوں اور مسافروں کے بجائے روڈ کو محفوظ بنائیں۔ 

روڈ کی سیکورٹی کو یقینی بنائیں لیکن ہماری شنوائی نہیں ہوئی اور ہماری تجاویز کو کسی نے قبول نہیں کیا۔ چند سیکورٹی اہلکاروں اور گاڑیوں کے درمیان میں سو مسافر گاڑیوں کو رکھنا لوگوں کو باندھنے کے مترادف ہے۔ وہ بیچارے کچھ نہیں کرسکتے ہیں اور اس طرح کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ 

 انجینئر حمید حسین نے مزید کہا کہ یہ واقعات نہ زمینی تنازعات کا شاخسانہ ہیں اور نہ مذہبی فسادات ہیں۔ ضلع کرم واحد علاقہ جہاں کا زمینی ریکارڈ موجود ہے لہذا ان ریکارڈز کی موجودگی میں کوئی تنازع نہیں ہے۔ اگر ہے تو بھی حکومت چاہے تو ایک دو دنوں میں حل کرسکتی ہے۔ یہ واقعہ مذہبی فسادات بھی نہیں ہے کیونکہ اس میں جو 31 افراد بچ گئے تھے انہوں نے اہل سنت برادران کے گھروں میں جاکر اپنی جان بچائی ہے۔ اہل سنت نے ان کو احترام کے ساتھ رکھا اور باعزت اپنے گھروں تک پہنچادیا۔ اگر مذہبی فسادات ہوتے تو یہ افراد کیسے بچ گئے؟ یہ سب کسی خاص مقصد کے تحت کروایا گیا ہے۔

انہوں نے حملہ آوروں کے بارے میں کہا کہ ان کا کچھ پتہ نہیں چلتا ہے۔ وہ جنات کی طرح فورا غائب ہوجاتے ہیں۔ یہی تو ہمارا سوال ہے کہ 45 عام افراد مارے جاتے ہیں لیکن ان کا کوئی بندہ مارا نہیں جاتا ہے۔ 

پاکستانی رکن قومی اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ ضلع میں روڈ کی سیکورٹی کرم ملیشیا کے حوالے کی جائے جس میں شیعہ اور سنی دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے موجود ہیں۔ ہمیں اپنا کرم ملیشیا واپس کردیں اور ایف سی کو جو بعض اوقات یکطرفہ کارروائی کرتی ہے، علاقے سے واپس لے جائیں۔ اس طرح امن واپس آسکتا ہے۔

رکن قومی اسمبلی نے عوام سے کہا کہ باہمی اختلافات کو چھوڑ دیں۔ اختلافات اور جھگڑوں میں ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے۔ جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جب ہم آپس میں بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں گے تو علاقے میں امن آئے گا۔