مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: لبنان کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی بیروت کے مسلسل 13 دوروں کے بعد اس ملک میں جنگ بندی کے امکان کے بارے میں پر امید ہیں جب کہ صیہونی حکومت جنگ بندی کے حصول میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے ناقابل قبول شرائط مسلط کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
اس بارے عبدالباری عطوان نے روزنامہ رائ الیوم کے اپنے اداریے میں لکھا: ہوچسٹین کی حقیقت یہ کہ وہ صہیونی فوج میں تھے اور اب بھی قابض افواج کی ریزرو فورس کا حصہ ہیں، لیکن ایک امریکی ایلچی کے روپ میں لبنان کے دورے پر ہیں۔ اس شخص کا مقصد یقینی طور پر بیروت کے اپنے 13 دوروں میں تل ابیب کے مفادات کو پورا کرنا ہے۔ تاہم دو دن پہلے لبنانی مزاحمتی فورسز نے تل ابیب کے قلب میں واقع فوجی اڈے پر بھاری میزائل فاتح فائر کر کے صیہونی ہوچسٹین کا شاندار استقبال کیا۔
اس خصوصی آپریشن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر آگ لگ گئی اور بن گورین ہوائی اڈے کی بندش کے ساتھ 20 لاکھ سے زائد صیہونیوں کو پناہ گاہوں میں چھپنا پڑا۔ مذکورہ آپریشن ہوچسٹین کے اس دورے کا فیصلہ کن ردعمل ہے، جو لبنان میں بغاوت اور اس ملک اور غزہ کے درمیان رابطے کو توڑنے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔
روزنامہ القدس العربی نے رپورٹ دی: جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ فلسطینی قوم کے لئے بائیڈن اور ہیرس سے زیادہ انصاف پسند ہیں، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگلی امریکی حکومت کے حساس عہدوں کے لئے ٹرمپ کے امیدوار صیہونی رجیم کے انتہاپسند سرغنے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو اور اس کے کارندے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کہ مقبوضہ فلسطین میں جرائم جاری رکھنے کے لئے نئی امریکی صیہونی ٹیم میسر آئے گی۔
لبنانی روزنامہ الاخبار نے لکھا ہے: روس نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ جو بائیڈن کی جانب سے یوکرین کو روسی سرزمین پر حملہ کرنے کے مقصد سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے استعمال کی اجازت دینے کا فیصلہ ماسکو کو جوہری ردعمل پر ابھار سکتا ہے۔ شاید یہ کارروائیاں روس کو مغربی ممالک کو نشانہ بنانے کے لیے دوسرے ممالک کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں سے لیس کرنے کے اپنے سابقہ خطرات پر عمل کرنے پر مجبور کر دیں گی۔
کریملن کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ یوکرینی فوج کی طرف سے مغربی جوہری میزائلوں کا استعمال پیوٹن کے جوہری نظریے کو بدل سکتا ہے۔ روسی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ اور اس ملک کے سابق صدر دمتری میدویدیف نے بھی دھمکی دی تھی کہ یوکرین کی طرف سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے نیٹو میزائلوں کے استعمال کا مطلب روس پر حملہ ہے جو کیف کے خلاف بڑے پیمانے پر تباہی کے لئے ماسکو کو جوہری ہتھیاروں سے جواب دینے کا حق دیتا ہے۔
شامی اخبار الثورہ نے رپورٹ دی: جنگ افروزی کے ذریعے جنگ بندی کا حصول! یہ موجودہ دور کے لئے نیتن یاہو کا مضحکہ خیز منصوبہ ہے جب ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں براجمان ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں لگتا کہ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں موجودگی سے امریکی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ ایک سال ہو گیا ہے کہ ہم نے دیکھا ہے کہ علاقے میں صیہونی حکومت کی جارحیت میں توسیع سے پہلے جنگ بندی کے معاہدوں کے مسودے لکھے جا رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں بھولے کہ غزہ میں جنگ بندی کی افواہوں نے لبنان کے خلاف جارحیت کا آغاز کیا اور امریکہ نے جنگ بندی مذاکرات کی چال سے صیہونی حکومت کے ہاتھوں مزاحمتی رہنماؤں کے قتل کے لئے راستہ ہموار کیا۔
شام کے اخبار الوطن نے لکھا ہے: 1965 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے قیام کے بعد سے، صیہونی رجیم کی اہم حکمت عملیوں میں سے ایک یہ تھی کہ مزاحمت کے پہلے اور دوسرے درجے کے رہنماؤں کو قتل کیا جائے تاکہ تنظیم کے رابطے کو توڑا جا سکے۔ اور ایک ہی وقت میں لڑنے والی قوتوں کے حوصلے کو کمزور کرنا ان کی رائے میں بالآخر ان تنظیموں اور اداروں کے خاتمے کا سبب بنے گا۔
موساد کا پہلا مشن مذکورہ تنظیم کے رہنماؤں کو ٹارگٹ کرنا تھا اور حزب اللہ کے حوالے سے بھی یہی پالیسی اپنائی گئی کہ عباس الموسوی اور سید حسن نصر اللہ سمیت دیگر مزاحمتی رہنماؤں کا قتل بھی اسی وحشیانہ منصوبے کا نتیجہ تھا۔
لیکن ان دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے مزاحمتی رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ کے باوجود واشنگٹن اور تل ابیب مزاحمتی تحریکوں اور تنظیموں کو تباہ کرنے کے اپنے مذموم مقاصد حاصل نہیں کر سکے ۔
روزنامہ المراقب العراقی نے لکھا: صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف عراقی قوم کی فلسطین اور لبنان کی حمایت پچھلے ایک سال سے جاری ہے اور انسانی امداد لے جانے والے قافلے بغداد سے بیروت اور غزہ تک ایک انسانی پل بنا رہے ہیں۔
گزشتہ چند دنوں کے دوران بغداد اور عراق کے دیگر صوبوں کربلائے معلی اور نجف اشرف میں عوام کی شرکت سے طبی اور غذائی امداد کی وسیع مہم چلائی گئی ہے۔
یمن کے معروف اخبار المسیرہ نے لکھا ہے: وہ امریکہ جو پوری دنیا خاص کر مشرق وسطیٰ میں مکمل آزادی کے ساتھ اپنے بحری جہازوں کی نقل و حرکت پر اتراتا تھا اور اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن بحیرہ احمر میں منہ کی کھائے گا۔ ایک ایسا علاقہ جو یمنی مسلح افواج کی عملداری میں امریکی جہازوں کے لئے نو گو ایریا بن چکا ہے۔ صیہونی حکومت کے حامی آج بھی بحیرہ احمر، بحیرہ عرب، باب المندب، بحیرہ روم اور بحر ہند کو عبور کرنے سے گھبراتے ہیں۔ کیونکہ یمن کی مسلح افواج ان کی درگت بنانے کے لئے پوری مستعدی کے ساتھ موجود ہیں۔