مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صوبہ فارس کے شہداء کی کانگریس کے منتظمین سے ملاقات میں علاقے کے واقعات اور مزاحمت کی جدوجہد کو خطے کی تقدیر اور تاریخ میں تبدیلی کا عنصر قرار دیا۔
انہوں نے صیہونی رجیم کے ہاتھوں 50,000 سے زائد بے گناہ افراد کے قتل عام کے باوجود مزاحمت کو تباہ کرنے میں رجیم کی رسواکن شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مغربی ثقافت، تہذیب اور سیاست دانوں کی ہزیمت کو اس سے بھی بڑی شکست قرار دیا اور کہا کہ محور مقاومت کی محور شرارت کے مقابلے میں محاذ آرائی میں فتح مزاحمت کی ہی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے خطے کے موجودہ مسائل اور غزہ، لبنان اور مغربی کنارے کے واقعات کو تاریخ ساز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر شہید سنوار جیسے لوگ نہ ہوتے جو آخری دم تک لڑتے، یا شہید سید حسن نصر اللہ جیسے عظیم لوگ نہ ہوتے کہ جنہوں نے جہاد، حکمت، جرأت اور قربانی کو یکجا کرکے میدان میں اتارا تو اس خطے کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔
رہبر معظم انقلاب نے خطے میں رونما ہونے والے واقعات کے موجودہ نتائج کو نہ صرف صیہونی حکومت بلکہ مغرب کی تہذیب و ثقافت کی بھی بڑی شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کا خیال تھا کہ وہ مزاحمتی گروہوں کو آسانی سے تباہ کر سکتے ہیں، لیکن آج 50 ہزار سے زائد نہتے شہریوں اور مزاحمت کے کئی سرکردہ رہنمائوں کی شہادت اور امریکہ کی بھاری حمایت کے باوجود انہیں دنیا میں نفرت کے سوا کچھ نہیں ملا یہاں تک کہ امریکی یونیورسٹیوں میں بھی ان مجرموں کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے گئے، جب کہ مزاحمتی محاذ، حماس، اسلامی جہاد، حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے نوجوان مجاہدین اسی عزم اور طاقت کے ساتھ لڑ رہے ہیں، جو کہ صیہونی حکومت کی بہت بڑی شکست ہے۔
انہوں نے اسے مغربی ثقافت اور تہذیب کی بھی سب سے بڑی شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ دو ٹن وزنی بموں اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے 10 ہزار معصوم بچوں کا قتل عام مغربی جھوٹے سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے دعویداروں کی رسوائی کا باعث بنا اور مغربی تہذیب کا کھوکھلا پن اور نفاق دنیا پر آشکا ہوا جو کہ ان کی سب سے بڑی شکست ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے صیہونی رجیم کے حامی محاذ کو محور شرارت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس محور شرارت کے مقابلے محور مقاومت کھڑا ہے اور خدا کے فضل سے فتح مزاحمت کے محاذ کی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں صوبہ فارس کو دین، حماسہ اور فن کے امتزاج کا بہترین مظہر قرار دیا اور اس سرزمین کے ماضی سے لے کر آج تک کے ممتاز شہداء بشمول شہیدہ معصومہ کرباسی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا: صوبہ فارس کے شہداء کی کانگریس کو حماسہ، فن اور دین کے خوبصورت امتزاج کو برقرار رکھنا چاہیے۔
انہوں نے پہلوی دور میں شیراز اور فارس کو غیر دینی بنانے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو اس دور میں خیال کرتے تھے کہ وہ ہنر شیراز جیسے گھناونے اقدامات کے ذریعے اسے اہل بیت کے حرم اور مرکز دین و ایمان سے مرکز فساد میں بدل سکتے ہیں، وہ سخت غلطی پر تھے،
بلاشبہ آج بھی ہمارے وطن عزیز میں ان کے کچھ گماشتے اور باقیات ہیں جو فن کو روحانیت اور حماسہ سے الگ کرنا چاہتے ہیں لیکن جو چیز ملک و قوم کو ترقی عطا کرتی ہے وہ دین، حماسہ اور فن کا امتزاج ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ فارس کے 15000 شہداء کی کانگریس کے انعقاد میں شامل افراد کو ثقافتی اور فنی تخلیقات کی تاثیر کا جائزہ لینے کی نصیحت کرتے ہوئے مزید فرمایا: ہمارے نوجوانوں کو ملک کے پر افتخار اور شاندار ماضی، خاص کر انقلاب کے بعد کے سالوں اور تہران میں امریکی جاسوسی اڈے پر قبضے کے سبب یا بعثی دشمن کے خلاف 8 سالہ جنگ کی وجہ اور اس سے جڑے واقعات کے حقائق کی اچھی اور درست تبیین کی ضرورت ہے۔