لبنانی تجزیہ نگار اور حزب اللہ کے کمانڈر شہید ابراہیم عقیل کی بیٹی نے جمعے کے روز رہبر معظم انقلاب کے حالیہ خطبے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فلسطین کی حمایت کے لیے میدانوں میں اتحاد پر زور دیا۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک«ورده سعد» : لبنانی تجزیہ نگار اور حزب اللہ کے کمانڈر شہید حاج ابراہیم عقیل کی بیٹی زینب عقیل نے ایک انٹرویو میں کہا کہ مزاحمت کے پاس بہت سے منصوبے اور پروگرام ہیں جنہیں وہ زمینی کارروائیوں کے لیے استعمال کر سکتی ہے، حال ہی میں شائع ہونے والی خبروں نے دلوں کو خوش کر دیا ہے، حالانکہ ابھی تک دشمن کے محاذ پر لڑائیاں جاری ہیں اور وہ لبنان میں آسانی سے داخل نہیں ہو سکتا۔

مہر نیوز کو دئے گئے اس انٹرویو کا متن حسب ذیل ہے:

مہر نیوز:  آپ رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے تاریخی خطبے کو کس نگاہ سے دیکھتی ہیں اور ان بیانات کو تاریخی کیوں سمجھا جاتا ہے؟

زینب عقیل: رہبر معظم انقلاب کے بیانات کو اس اعتبار سے تاریخی سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے فلسطین کی حمایت میں صیہونی رجیم پر لگائی گئی تاریخی ضرب کو سراہتے ہوئے کہا: یہ اقدام بنیادی طور پر ایک شرعی اور قانونی فریضہ ہے اور پورے خطے اور پوری انسانیت کی خدمت ہے۔

 رہبر معظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سید حسن نصر اللہ جیسی شخصیت کی شہادت فلسطین کے لیے ایک تاریخی واقعہ ہے کیونکہ معاصر تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ملت اسلامیہ کا ایک دوسرے کے ساتھ آج جیسا میدانی اتحاد قائم ہوا ہو اور اس کا خون اس راستے میں بہا ہو اور عرب اور مسلم ممالک کے درمیان مصنوعی سرحدوں کو توڑتے ہوئے اسلامی امت کے بنیادی مقصد کی اس طرح حمایت کی گئی ہو۔

مہر نیوز؛ لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی مزاحمتی زندگی اور شہادت اور مزاحمت کے خلاف صیہونی دشمن کے جرائم اور قتل وغارت گری کے چالیس برس بعد پیجرز دھماکے اور مزاحمتی رہنماؤں کے قتل کے تناظر میں خطے کے حالات کی سمت کیا ہوگی اور آپ کو لگتا ہے کہ ان جرائم کے بعد امریکہ براہ راست مداخلت کرے گا اور کیا آپ جنوبی لبنان پر صیہونی زمینی قبضے کی پیش گوئی کرتی ہیں؟

 مغربی تجزیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے خطے کے بیشتر جائزوں سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صیہونی حکومت ہی امریکہ کو جنگ کی طرف لے جا رہی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مزید جرائم کے ارتکاب سے یہ بات واضح ہو گئی کہ معاملہ برعکس ہے بلکہ یہ امریکہ ہی ہے جو اس جنگ کا ذمہ دار ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے تاکہ وہ ایک بار پھر مزاحمتی محور کی ناکامی کے ساتھ خطے پر غلبہ حاصل کر سکے اور اگر وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا تو اسے رسواکن شکست ہو گی۔ اس لیے وہ آخری حد تک لڑتے رہیں گے۔ اگر یہ جنگ ابھی یا اس سے پہلے کہ مقبوضہ علاقوں پر ایران کے حملے کے بعد روک دی جائے تو ان کی شکست واضح ہو جائے گی اور یہ خطے میں طاقت کا توازن تبدیل کر دے گی، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی مہم جوئی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ وہ جانتے ہیں کہ جنگ کیسے شروع کرنی ہے، لیکن اسے ختم کرنا نہیں جانتے۔

 مہر نیوز؛ ہم دیکھتے ہیں کہ لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت نے ظلم و بربریت کی سطح کو بڑھا دیا ہے اور اپنے آپ کو اس جنگ کا فاتح قرار دے رہی ہے، جب کہ امریکہ اور نیٹو کے بغیر صیہونی جنگ جاری نہیں رکھ سکتے، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ 

دشمن سمجھتا ہے کہ جب اس نے مزاحمت کے مواصلاتی نظام میں گھس کر ہمارے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سمیت اس کے کئی کمانڈروں اور رہنماؤں کو قتل کرنے میں کامیابی حاصل کی تو اس نے مزاحمت کے ڈھانچے کو ایک سخت دھچکا پہنچایا اور اسے تباہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

 لیکن اس نے مزاحمت کی ہماری ثقافت کو نہیں پہنچانا۔ مزاحمت کی بنیاد عاشورہ کے کلچر پر ہے جہاں اسلام کی بقا کے لیے تمام کرداروں کو شہادت کے لیے پیش کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ اہل بیت کی خواتین کو بھی بدترین حالات میں اسیر کے ایک خطہ سے دوسرے خطے میں لے جایا جاتا ہے، لیکن اسلام باقی رہتا ہے اور دشمن کے اس خطے کو قبل از اسلام کے دورہ جاہلیت میں لوٹانے کے منصوبے ناکام ہو گئے۔ تاریخ آج اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، ہم حق پر ہیں اور شاید ایک چھوٹے گروہ نے خدا کے حکم سے ایک بڑے گروہ پر قابو پالینا ہے۔

مہر نیوز؛ ہم نے دشمن کے ذرائع ابلاغ میں پڑھا کہ نیتن یاہو غزہ یا لبنان میں مسلمانوں کے قتل عام میں صیہونیوں کی تحریف شدہ تورات کے مندرجات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور ہمیں 1982 کی طرف لوٹانا چاہتے ہیں، آپ ان دعوؤں کو کس نظر سے دیکھتی ہیں اور اس سلسلے میں اقوام عالم کا کیا کردار ہے؟ اور اس حوالے سے دنیا کی حکومتیں محور شرارت اور محور انسانیت کے درمیان جنگ کی طرف کیوں توجہ نہیں دیتیں؟ 

دنیا صرف اپنے مفادات کو دیکھتی ہے۔ انسانیت کے آغاز سے لے کر اب تک خونریزی اور فساد برپا کرنے والے ایسے رہے ہیں اور ان کی تعداد ہمیشہ ان لوگوں سے زیادہ رہی ہے جو محض عادلانہ نظریات رکھتے تھے۔ اسی لیے انبیاء اور اولیاء کرام کو حجت تمام کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا اور جس وقت زمین پر فساد پھیل رہا تھا، وہ لوگوں کو صحیح راستہ دکھانے کے لیے تشریف لائے۔ لیکن موجودہ عالمی نظام میں مہذب ہونے کے دعویدار منافقین نے تسلط جمایا ہے اور انسانی حقوق اور اقدار کے نقاب چہروں پر چڑھائے ہوئے ہیں، اور امن و صلح کے بہانے نسل کشی کرتے ہیں، دراصل ان کے شیطانی مفادات ہیں۔

 اگر یہ امن و استحکام دوسری قوموں کے فائدے میں ختم ہونے کا خدشہ ہو تو یہ فوراً مداخلت کرکے دوسروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کریں گے۔ مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کے حوالے سے میں یہ ضرور کہوں گی کہ یہ مسئلہ ناممکن ہے اور وہ طاقت کے توازن کو نہیں بدل سکتے۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقی اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس کی جگہ لبرل اسلام کو کہ جو خلیج فارس کی بعض عرب حکومتوں کی طرف سے لانا چاہتے ہیں، تو میں یہ ضرور کہوں گی کہ مسئلہ فلسطین سب سے بڑی ترجیح بن کر ان کے راستے میں کھڑا ہو چکا ہے۔ اور مسلمانوں کے سامنے حقیقی اسلام کا نقشہ واضح ہو گیا ہے تاکہ گمشدہ لوگوں کو راستہ دکھایا جا سکے۔ 

مہر نیوز؛ کچھ عرصہ قبل نیتن یاہو نے ایران کے خلاف دھمکی آمیز بیانات دئے تھے، لیکن انہیں وعدہ صادق 2 آپریشن کے ذریعے منہ توڑ جواب دیا گیا، جو شہید اسماعیل ہنیہ، سید حسن نصر اللہ، عباس نیل فروشان اور دیگر شہداء کے قتل کے ردعمل میں تھا، ایران کے جواب کی قانونی حیثیت پر غور کرتے ہوئے، آپ کے خیال میں مستقبل کی صورت حال کیا ہوگی اور کیا ہم علاقائی جنگ کے دہانے پر ہیں؟

 واضح ہے کہ امریکہ تنازعات کو مقبوضہ فلسطین سے ملحقہ محاذوں کے دائرے میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور یمن اور عراق کے معاون محاذوں پر محدود حملے کر رہا ہے۔ امریکہ ہر ممکن حد تک جنگ سے باہر رہنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ اس کے پاس روس اور چین کے خلاف دیگر پراکسی تنازعات شروع کرنے کے علاوہ بہت سے اقتصادی مسائل ہیں۔ بلاشبہ انہوں نے اپنے فوجی بیڑے کو ڈیٹرنس پیدا کرنے اور صیہونی حکومت کے امریکہ کے اہداف کے حصول میں ناکام ہونے کی صورت میں خطے میں ممکنہ تصادم کے لیے تعینات کیا تھا لیکن ایران کے صبر اور ایران کی کارروائیوں نے توازن بدل دیا۔  یقیناً یہ خطہ اب بھی بیک وقت زیادہ شدید تنازعات کا شکار ہے۔

مہر نیوز؛ دشمن کی زمینی کارروائیوں کی کوشش کے تناظر میں مزاحمتی محاذ کی میدانی جنگ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ 

میدانی جنگ کی خبروں نے ہمارے عوام کے دل خوش کر دیے ہیں۔ دشمن زمینی راستے سے لبنان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے لیکن مزاحمت اس کے خلاف کھڑی ہے اور لبنان میں داخل ہونے سے پہلے سرحدوں پر دشمن کے تمام امکانات کو تباہ کر دیتی ہے۔ جنگ اب بھی دشمن کے محاذ پر لڑی جا رہی ہے اور وہ لبنان میں آسانی سے داخل نہیں ہو سکیں گے۔ کیونکہ مزاحمت کے پاس بہت سے کامیاب منصوبے ہیں جنہیں وہ زمینی جارحیت سے نمٹنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے اور اس نے خود کو تمام حالات کے لیے تیار کر لیا ہے۔ 

حزب اللہ بھی مقبوضہ الجلیل پر زمینی حملے کے لیے تیاری کر رہی ہے اور اس سلسلے میں شہید کمانڈروں کے بنائے ہوئے تمام منصوبوں کو میدان عمل میں لایا جائے گا۔ البتہ اہم نکتہ یہ ہے کہ مجاہدین کا خون اپنے شہید کمانڈروں کا بدلہ لینے کے لئے جوش کھا رہا ہے اور وہ میدان میں کود پڑے ہیں۔