صیہونی وزیر اعظم نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ حماس اب بھی غزہ کی پٹی پر کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب ہے، ایران کے خلاف اپنے بے بنیاد دعووں کو دہرایا کہ تل ابیب جنگ کے سات محاذوں پر ایران کے خلاف اپنا دفاع کر رہا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ صیہونی وزیر اعظم کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران بڑی تعداد میں ممالک کے نمائندے احتجاجا ہال سے نکل گئے۔

اس دوران نیتن یاہو نے مظلوم نمائی کو کوشش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل جنگ میں ہے اور زندہ رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیل امن کا خواہاں ہے، لیکن ہمیں ایک شدید دشمن کا سامنا ہے جو ہمیں تباہ کرنا چاہتا ہے، اور ہمیں اپنا دفاع کرنا چاہیے۔

انہوں نے اپنے بے بنیاد دعوؤں کو دہراتے ہوئے مزید کہا: حماس کے ہزاروں جنگجووں نے 7 اکتوبر کو ایران کی حمایت سے اسرائیل پر حملہ کیا، اور ہم اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہم تمام قیدیوں کو رہا نہیں کراتے، اسرائیل سات جنگی محاذوں میں ایران کے خلاف اپنا دفاع کرتا ہے۔

قابض رجیم کے وزیر اعظم نے ایران کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ میرا ایران کو پیغام ہے کہ اگر تم ہمیں مارو گے تو ہم تمہیں ماریں گے اور ایران میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں تک اسرائیل کے ہاتھ نہ پہنچ سکیں۔

اگر ایران کے حملے بند نہ ہوئے تو اس سے مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کو خطرہ ہو گا۔ ہم ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

ایران کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو روکنے کے لیے دنیا کے ممالک کو متحد ہونا چاہیے اور ایران کے ساتھ دنیا کا معاہدہ ختم ہونا چاہیے۔

نیتن یاہو نے کہا کہ حزب اللہ نے 8 اکتوبر سے اب تک ہم پر 8000 سے زیادہ راکٹ فائر کیے ہیں۔ اسرائیل کو لبنان کی حزب اللہ کو شکست دینا ہوگی۔

شمالی سرحد پر 60 ہزار سے زائد اسرائیلی حزب اللہ کے حملوں کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ہم اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ ہمارے شہری شمال میں اپنے گھروں کو بحفاظت واپس نہیں جاتے۔

ہم نے حزب اللہ کے راکٹوں کے بڑے ذخیرے کو تباہ کر دیا جو اس نے ایران کی مالی مدد سے بنایا تھا۔

انہوں نے حماس کے مقابلے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: ہم نے حماس کے 90 فیصد میزائل ہتھیاروں کو تباہ کر دیا۔

ہم حماس کی جنگی صلاحیتوں میں سے جو بچا ہے اسے تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن حماس کی فوجی طاقت کو کم کرنے کی ہماری کوششوں کے باوجود وہ غزہ پر قابو پانے میں کامیاب ہیں۔ اگر حماس قیدیوں کو رہا نہیں کرتی ہے تو ہم اس وقت تک لڑیں گے جب تک ہم مکمل فتح حاصل نہیں کر لیتے۔

اگر حماس اقتدار میں رہتی ہے تو وہ ہمارے خلاف اپنے حملوں کا اعادہ کرے گی۔ ہم جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ میں حماس کی موجودگی کو قبول نہیں کرتے اور ہم چاہتے ہیں کہ غزہ سویلین بن جائے۔

نیتن یاہو نے غزہ پر جاری مظالم کی طرف اشارہ کئے بغیر عرب ملکوں سے تعلقات کی امید باندھتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے عرب پڑوسیوں کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ دہشت گردی کی ان قوتوں سے لڑ رہے ہیں جن سے اس معاہدے کو خطرہ ہے۔ ہمیں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی امن معاہدے تک پہنچنے سمیت ابراہیم معاہدے میں شروع کیے گئے منصوبے کو جاری رکھنا چاہیے۔