مہر نیوز کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے نیویارک کے دورے کے دوران مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی حکومت کی جارحیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت غزہ کی جس دلدل میں بری طرح پھنس چکی ہے، جس سے نکلنے کے لیے پورے خطے میں جنگ کے شعلے بھڑکانے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں اپنی جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کی وحشیانہ جارحیت کے باوجود ایک سال گزرنے کے بعد بھی حماس کو تباہ کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
عراقچی نے غزہ جنگ کے آغاز کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے اور پھر لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت میں اضافے اور پیجرز دھماکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایسے اقدامات کو "کھلی دہشت گردی اور انسانیت کے خلاف سنگین جرم" قرار دیا، جو در حقیقت تل ابیب کی بوکھلاہٹ اور بے بسی کا اظہار ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی سمجھتے ہیں کہ وہ میدان جنگ کو وسعت دے کر اس بحران سے نکل سکتے ہیں۔ لیکن ہم پوری طرح ہوشیار ہیں اور ان کے جال میں نہیں آئیں گے۔ وہ بوکھلاہٹ میں حماقتوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
عراقچی نے امریکہ کے لبنان میں ہونے والے دھماکوں سے متعلق بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے خیال میں یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔ کوئی بھی ان دعوؤں پر یقین نہیں کر سکتا کہ امریکی اس سے آگاہ نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اسرائیلی حکومت کو خطرناک ہتھیاروں کی فراہمی اور انٹیلی جنس اور سیاسی حمایت کے ذریعے فلسطینیوں کے خون میں ہاتھ رنگے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی ان جرائم کی ذمہ دار ہیں اور وہ اس کے نتائج سے بچ نہیں سکتے۔
عراقچی نے واشنگٹن کی سامراجی پالیسیوں، دنیا کے کئی حصوں میں فوجی مداخلت اور غنڈہ گردی کے خلاف تہران کی مخالفت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے امریکیوں کے ساتھ بنیادی اختلافات ہیں، کیونکہ امریکی آزادی اور استقلال کے ایران کے جذبے کے خلاف ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ اختلافات کا مکمل حل ممکن نہیں ہے، تاہم اس کے ممکنہ نتائج کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔