مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ امام صادق علیہ السلام کی امامت کا دور اہل بیت کی زندگی کے اہم ترین دوروں میں سے ایک ہے۔ اسی مناسبت سے امام صادق علیہ السلام کے ثقافتی اقدامات کی تحقیق کے لیے، مہر نیوز نے حوزہ علمیہ مرکز مطالعات و جوابدہی کے سربراہ اور حوزہ علمیہ کے استاد حجۃ الاسلام امیر علی حسنلو کے ساتھ گفتگو کی، ذیل میں ان کی گفتگو کا متن پیش کیا جاتا ہے۔
مہر نیوز: امام صادق علیہ السلام کو جعفری مذہب کا سربراہ اور بانی کیوں کہا جاتا ہے؟
حجت الاسلام حسنلو: کئی عوامل کی وجہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام اسلامی کو علم پھیلانے کا موقع ملا اور آپ نے رسول اکرم ص سے وراثت میں ملنے والے علم کو لوگوں تک پہنچایا۔ بنو امیہ اور بنی عباس کا خیال تھا کہ علم کو اہل بیت کے علاوہ دوسروں سے بھی لیا جاسکتا ہے اسی لیے ائمہ معصومین کے مقابلے میں دوسرے فقہا کو پیش کیا گیا۔ امام جعفر صادقؑ نے ان تمام سازشوں کو ناکام بنادیا اور آپ کی کوششوں سے جس دین کی آپ ترجمانی کرتے تھے وہی معاشرے میں غالب آیا۔
امام صادق علیہ السلام کی امامت کا زمانہ نسبتاً طویل اور تیس سال سے زیادہ تھا، اور اگرچہ آپ کے دادا حضرت امام زین العابدین علیہ السلام، امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام اور امام علی النقی علیہ السلام کو بھی تیس سال امامت کا موقع ملا لیکن جو موقع اور مقام امام صادقؑ کو ملا وہ ان بزرگوں کو نہیں ملا۔ امام صادق علیہ السلام کا زمانہ فقہ، کلام، مناظرہ اور حدیث کے فروغ کا دور تھا اور ان کے زمانے میں بدعتیں اور گمراہی بھی پھیلی ہوئی تھی۔
آپ کی امامت کے دوران بنی ہاشم پچھلے ادوار کے مقابلے میں نسبتاً سکون میں رہتے تھے جو کہ دوسرے ائمہ کے دور میں موجود نہیں تھا، اس لیے امام نے سازگار حالات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اصل دین کو قائم کیا۔
آپ نے اصل شیعہ مکتب کی بنیاد رکھی اور اس کی پرورش کی اور اپنے آباء و اجداد کی زندگی اور رسول خدا (ص) کے نام اور روایات کا احیاء کیا۔ چنانچہ مکتب جعفری کو مکتب خلفاء کے مقابلے میں پیش کیا گیا اور امام صادق علیہ السلام اس کے بانی کے طور پر معروف ہوگئے۔
یہی وجہ تھی کہ امویوں کے نابود ہونے اور عباسیوں کے اقتدار کے عروج کے درمیان امام صادق کو علم کی ترویج اور احکام الہی کو فروغ دینے کا موقع ملا۔ ایسی حالت میں کہ جب وہ بنی امیہ کی نگرانی اور کنٹرول سے آزاد ہو گئے تھے اور انہوں نے اہل بیت اور لوگوں کے درمیان جو فاصلہ پیدا کر دیا تھا، امام صادقؑ نے اس کو ختم کیا۔ امام عالی مقام کو اپنے نظریات کو بیان کرنے کے ساتھ اس دور کے علماء اور متکلمین کے آراء پر آزادانہ اشکال کرتے تھے۔
دوسری جانب بنی امیہ کی سالوں کی سازشوں کے نتیجے میں سنت نبوی پر پڑنے والے گرد و غبار کو صاف کرتے تھے۔ عالم اسلام کے مختلف حصوں سے علم و دانش کے پیاسے آپ کی خدمت میں آتے تھے۔
اس زمانے میں حقیقی اسلام اور تشیع کے نظریات اور افکار کو حضرت امام جعفر صادقؑ بیان کرتے اور لوگ آپ کی طرف نسبت دیتے تھے اور اسے "جعفر صادق علیہ السلام کا دین" کہا جاتا تھا۔
اس بابرکت اور بابرکت دور میں امام صادق کے مکتب کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ وہ اس وقت کی ثقافتی تحریک کے فکری رہنما تھے۔
درحقیقت وہ اسلامی دنیا میں مذہبی، فلسفی اور فقہی مکتب تخلیق کرنے والے پہلے شخص تھے۔ نہ صرف وہ لوگ جنہوں نے بعد میں دینی مدارس کی بنیاد رکھی امام کے مکتب سے درس حاصل کیا بلکہ دور دراز سے فلسفہ کے علمبردار، ماہرین الہیات اور متکلمین بھی ان کے مکتبِ علم کی طرف متوجہ ہوئے۔
متذکرہ دور میں امام صادق علیہ السلام کا گھر ایک بڑا مدرسہ تھا جس میں حدیث، تفسیر، حکمت و الہیات، قرآنی علوم کے بڑے بڑے علماء درس لینے آتے تھے۔ تاریخ میں شاگردوں کی تعداد چار ہزار سے زائد مرقوم ہے۔
ابن ابوالعوجہ جو کہ ایک غیر مسلم تھا، نے امام صادق علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کی علمی عظمت کے بارے میں کہا کہ یہ شخص جنس بشری سے نہیں ہے، اگر دنیا میں کوئی روحانی موجود ہے جو جب چاہے دنیوی اور جب چاہے روحانی ہوجائے تو وہ یہی شخص ہے۔
مہر نیوز: حضرت امام جعفر صادقؑ کی امامت کے دوران آپ کی ثقافتی تحریک کے بارے میں بتائیں؟
حجت الاسلام حسنلو: حضرت امام جعفر صادقؑ کی علمی تحریک اسلامی تہذیب کی پوری تاریخ میں منفرد ہے، امام صادق (ع) نے چونکہ مناسب سیاسی موقع پیدا ہوا تھا اسی وجہ سے معاشرے کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی تہذیب کو زندگی بخشی۔
انہوں نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام کی علمی اور ثقافتی تحریک کو جاری رکھا اور ایک وسیع علمی میدان سجاکر بڑا تعلیمی ادارہ بنایا اور اس زمانے کے علوم کے مختلف شعبوں میں، ہشام بن حکم، محمد بن مسلم، ابان بن تغلب، ہشام بن سالم، مومن طاق، مفضل بن عمر اور جابر بن حیان جیسے عظیم اور ممتاز علماء کی تربیت کی۔
ان میں سے ہر ایک کسی علمی شعبے میں مہارت رکھتا تھا۔ مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے 31 کتابیں لکھیں اور جابر بن حیان نے مختلف علوم بالخصوص کیمیا کے شعبے میں دو سو سے زائد کتابیں لکھیں، اسی وجہ سے انہیں کیمسٹری کا باپ کہا جاتا ہے۔
مہر نیوز: حضرت امام صادق علیہ السلام کی علمی محفل کتنی وسیع تھی؟
حجت الاسلام حسنلو: حضرت امام صادق علیہ السلام نے اس دور کے فکر و عقیدہ کے تمام افکار اور تحریکوں کا مقابلہ کیا اور ان کے مقابلے میں اسلام اور شیعیت کے موقف کو واضح کیا اور اسلام کی برتری کو ثابت کیا۔ اہل سنت کے چاروں امام بالواسطہ یا بلاواسطہ امام جعفر صادقؑ کے شاگرد رہے ہیں۔
امام ابو حنیفہ ہیں جو دو سال تک امام کے شاگرد رہے۔ کہتے ہیں: اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان (ابوحنیفہ) ہلاک ہوجاتا۔ امام کے شاگرد مختلف جگہوں جیسے کوفہ، بصرہ، واسط اور حجاز وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کے شاگرد اور محدث بزرگ حسن بن علی وشاء کہتے ہیں کہ کوفہ کی مسجد میں میں نے حدیث کے نو سو علماء کو دیکھا، سب کے سب حضرت جعفر ابن محمد علیہ السلام سے حدیث نقل کررہے تھے۔
مہر نیوز: شیعہ امامی فقہ جعفری فقہ کیوں کہلاتی ہے؟
حجت الاسلام حسنلو: لوگوں کو اہل بیت (ع) سے دور کرنے کے لیے بنی امیہ کی طرح بنی عباس نے بھی بعض لوگوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق فقہ کا ایک خاص مکتب قائم کریں اور معاشرے میں اپنی ساکھ بنائیں۔ ان افراد نے اپنی خواہشات کے مطابق فتوای کے مکاتب ایجاد کیے تاہم مکتب اہل بیت کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ اہل بیت کے در سے ملنے والے علوم کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا تھا اس طرح حضرت امام جعفر صادقؑ کی فقہ ان سب پر غالب آگئی۔
آپ کے شاگر ہر جگہ مکتب اہل بیت کے فتوای اور تعلیمات کو آپ کے نام سے منتشر کرتے تھے اور دیگر مذاہب کے علماء پر غالب آتے تھے۔ اسی وجہ سے مکتب اور فقہ اہل بیت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے نام سے پھیل گیا۔ جعفر بن محمدؑ کے نام سے اس وقت کے اسلامی ممالک اور مساجد میں ہزاروں افراد فتوی، فقہ اور علوم فقہی بیان کرتے اور پڑھاتے تھے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فقہ اہل بیت میں تحول ایجاد کیا اور اہل بیت کی علمی میراث کو منظم و منسجم کردیا۔ آپ کے دور میں شیعہ فقہ دوسروں مذاہب سے مزید ممتاز ہوگئی۔