اسرائیلی فوج کی پروپیگنڈہ مشنری کا ایک مقصد افواہ سازی اور مسلسل جھوٹ کا پھیلاو ہے۔ اس طرح کے منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لیے مزاحمتی محاذ کے میڈیا کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح بیانیہ پیش کرے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: عبرانی ذرائع ابلاغ نے جمعرات کے روز شامی اینٹی فورسز کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ 8 ستمبر کو دمشق، حمص اور حما پر صیہونی فوج کے غیر معمولی حملے کے دوران؛ صیہونیوں نے مصیاف میں ہتھیاروں کے ڈپو میں گھسنے میں کامیابی حاصل کی اور دستاویزات اور سامان چرانے کے بعد اس ڈپو کو تباہ کر دیا۔ اتوار کو مقامی میڈیا نے بتایا کہ یہ حملہ شام کی وزارت دفاع سے منسلک ایک سائنسی تحقیقی مرکز پر کیا گیا ہے لیکن اب شام مخالف ذرائع صہیونی میڈیا کے ساتھ مل کر ایک نئی اور غیر معمولی کہانی تراشنے لگے ہیں۔

 ان خبر رساں اداروں کا خیال ہے کہ ایک مواصلاتی مرکز پر اسرائیلی حملوں کے بعد شام کے دفاعی نظام اس کھلی جارحیت کو روکنے کے لیے موثر کارروائی نہیں کر سکے۔ 

مغربی نیوز سائیٹ "Axios" کی رپورٹ کے مطابق یہ حملہ اسرائیلی فضائیہ کے خصوصی دستوں "Shaldaq" نے کیا اور حملے سے قبل تل ابیب نے وائٹ ہاؤس کو اس غیر قانونی اقدام سے آگاہ کیا اور امریکیوں سے "گرین سگنلز" حاصل کئے گے۔ 
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ "شمالی محاذ" میں صیہونی حکومت کی فوجی نقل و حرکت میں اضافے کی وجہ سے شام میں اسرائیل کے حالیہ اقدامات کا مقصد لبنان کو ہتھیاروں کی منتقلی کے سلسلے میں رکاوٹ ڈالنا یا اس پر اثر انداز ہونا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم شام کے اندر صیہونی حکومت کی حالیہ کارروائیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ان کارروائیوں کے حوالے سے ان کے دعووں کی سچائی کو جانچنے کی کوشش کریں گے۔ 

مرکز کی طرف جانے والی سڑک پر صیہونی حکومت نے حملہ کیا۔ 

مصیاف فوجی تنصیبات پر غیر معمولی حملہ

 اس حملے سے قبل صیہونی فوج نے صوبہ حما کے دفاعی نظام کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ ان ذرائع کے مطابق جو دعویٰ کیا گیا ہے،  اسرائیلی حملوں میں "P-18" ریڈار کے علاوہ چینی "JYL-1" اور "OSS" ریڈار سمیت جدید ترین آلات تباہ ہو گئے تھے۔

 تازہ ترین حملہ، جس نے حما کے مضافات میں جبل العربین کے علاقے میں JYL-1 ریڈار کو نشانہ بنایا، شام کے بڑے حصوں پر محیط 350 کلومیٹر کے فاصلے پر اس کی شناخت کی صلاحیتوں کو تباہ کر دیا۔ اس کے علاوہ، "جبل العربین" ریڈار اسٹیشن میں ایک "P-18" ریڈار تباہ ہوا، جس نے فضائی دراندازی کا پتہ لگانے کی صلاحیت کو بہت متاثر کیا۔ 

 اسرائیل لبنان کو ہتھیاروں کی سپلائی کا سلسلہ منقطع کرنا چاہتا ہے

ہالی ووڈ فلموں کے انداز میں صیہونی کارروائیوں کی داستان

 ترکی میں قائم شامی اپوزیشن کے ٹی وی چینل نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل نے ہائبرڈ  کارروائی میں بیلسٹک میزائل اور ڈورن کےذریعے بغیر ایک فوجی مقام کو تباہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ 

عبرانی اخبار "Yediot Aharonot" نے اس ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ نے ایک خصوصی آپریشن میں شام کے شہر مصیاف میں ایران کی میزائل سازی کی تنصیبات پر حملہ کیا۔

اس ذریعے کے مطابق، سپاہ پاسداران انقلاب سے منسلک مرکز بنیادی طور پر لبنانی اور شامی مزاحمت کے لیے ہتھیاروں کی سپلائی چین کا حصہ تھا۔ اس دعوے کے مطابق حملہ پہلے فضائی حملے سے شروع ہوا اور پاور سٹیشن اور شامی سکیورٹی گاڑیوں کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیلی فورسز نے اس مقام پر اترنے کے لیے ہیلی برن آپریشن شروع کیا۔

اس کے علاوہ شامی افواج کو آپریشن کے مقام تک پہنچنے سے روکنے کے لیے اس زیر زمین تنصیب کی طرف جانے والی سڑک پر ہوائی اور ڈرون سے حملہ کیا گیا ہے۔

 البتہ بعض ذرائع کا خیال ہے کہ یہ بیانیہ غلط ہے اور جس فورس نے یہ کارروائی کی وہ تل ابیب سے وابستہ شامی کرائے کے فوجی تھے جنہیں اس جگہ سے فرار ہونے کے لیے اسرائیلی ہیلی کاپٹروں کی مدد حاصل تھی۔ جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کارروائی کے دوران صیہونی حکومت سے وابستہ عناصر  اہم دستاویزات اور سازوسامان اپنے ساتھ لے گئے اور پھر اس جگہ کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دیا اعر اس حملے میں 16 افراد شہید ہوئے تھے۔ اس رپورٹ کا سب سے متنازعہ حصہ 2 یا 4 ایرانی فورسز کے ممکنہ اغوا کے بارے میں عبرانی میڈیا کا دعویٰ ہے جس کی خود عبرانی ذرائع نے بھی جلد ہی تردید کر دی تھی۔

مصیاف ​​کا علاقہ کہاں ہے؟ 

"دی ٹائمز آف اسرائیل" کے مطابق، مصیاف کا علاقہ مقبوضہ علاقوں کے شمال سے تقریباً 200 کلومیٹر اور مغربی ساحلی لائن سے 30 کلومیٹر  کے فاصلے پر واقع ہے۔

صیہونی جس مرکز پر حملہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ مصیاف سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر اور حما کے مغرب میں واقع ہے اور بظاہر اس نے مزاحمتی ہتھیاروں کے سلسلے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس حملے کے دوران مذکورہ تنصیبات کے علاوہ "زاویہ" میں تحقیقی مرکز اور "وادی العیون" کے قریب مقامات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اپنے مضبوط پہاڑی علاقوں اور جنگلات کے احاطہ کی وجہ سے یہ خطہ ہر قسم کے میزائلوں یا فوجی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے زیر زمین تنصیبات کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ سمجھا جاتا ہے۔

صیہونیوں کا دعویٰ ہے کہ اس مرکز میں ایرانی ماہرین نے زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل تیار کیے! اس سہولت کا خاص کام یہ ہے کہ مزاحمت کم سے کم خطرے کے ساتھ نقطہ زن میزائل بنا کر لبنان تک پہنچا سکتی ہے۔ 

بظاہر اس علاقے کی شناخت صیہونی حکومت کے انٹیلی جنس یونٹوں نے پانچ سال پہلے سے کی ہے۔ 

 ایک بے بنیاد دعویٰ جس کی جلد تردید کر دی گئی

اس رپورٹ کی اشاعت کے چند گھنٹے بعد ہی سکیورٹی ذرائع نے مہر نیوز ایجنسی کو بتایا کہ اس مقام پر کوئی ایرانی مشیر یا انجینئر موجود نہیں ہے۔ اس بنا پر اس علاقے میں دو چار ایرانی فورسز کا اغوا سراسر جھوٹ ہے اور یہ "جعلی خبر" شام میں ایران کے مشاورتی یونٹ کے خلاف "نفسیاتی آپریشن" اور تہران کو دباو میں لانے  کے مقصد سے شائع کی گئی تھی۔ 

 شام میں ایرانی سفارتخانے کے عربی پیج نے بھی ایکس اکاونٹ پر ایک پوسٹ میں اسرائیلی میڈیا میں کیے گئے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ شام میں مصیاف مرکز پر بمباری کے دوران کوئی ایرانی مشیر زخمی نہیں ہوا اور یہ دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے۔

صیہونی ملٹری سکیورٹی اکاؤنٹ

"OSINTdefender" نے "ایکس" سوشل پلیٹ فارم پر ایک سینئر اسرائیلی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مصیاف شہر کے قریب اسرائیلی اسپیشل فورسز کے حالیہ آپریشن کے دوران ایرانی مشیروں کے اغوا یا (شہادت) کے حوالے سے کیے گئے دعوے بے بنیاد ہیں اور اس فضائی حملے سے پہلے خطے میں کوئی ایرانی فوج نہیں دیکھی گئی۔ اس خبر کو پھیلانے کے عمل میں اہم نکتہ یہ ہے کہ صیہونیوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مصیاف میں کی جانے والی کارروائیوں سے فائدہ اٹھا کر شام میں ایرانی مشیروں کے بارے میں ایک نیا دعویٰ کرنے کی کوشش کی۔ 

تل ابیب کس چیز کی تلاش میں ہے؟

نیتن یاہو پر اسرائیلی رائے عامہ کے دباؤ کے ساتھ ساتھ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے سفارتی مذاکرات کی شدت نے گزشتہ 11 ماہ کی مسلسل شکست اور لبنان اور مقبوضہ گولان کی سرحد پر کشیدگی کی سطح میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔

جب کہ نیتن یاہو، گیلنٹ، ہرزی ہولوے اور حزب اختلاف کی سرکردہ شخصیات گانٹز اور لائبرمین کے بیانات کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ جنوبی لبنان میں جنگ کو وسعت دینے اور آبادکاروں کی واپسی کے لیے حالات فراہم کرنے کے لیے ایک قسم کا سیاسی عسکری اتفاق رائے قائم کیا گیا ہے۔ 

 فوج کی گذشتہ ہفتے لبنان کی سرزمین میں زمینی حملے کی مشقوں کا انعقاد اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔ بلاشبہ، غاصب رجیم کے کچھ نچلے درجے کے کمانڈر، جیسے امیر برام، "شمالی محاذ" پر بحران کو سفارتی طریقہ کار کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں یا فوج کی تعمیر نو کے بعد حزب اللہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن نیتن یاہو دونوں تجاویز کے خلاف ہیں۔ 

اسرائیل کے 14 چینل کے تازہ ترین سروے کے مطابق تقریباً 71 فیصد صہیونی لبنان پر فوجی حملے کے خیال کے حامی ہیں اور صرف 18 فیصد اس خیال کے خلاف ہیں۔ اسی وقت، 45% شرکاء کا خیال ہے کہ نیتن یاہو نے بائیڈن کے دباؤ کی وجہ سے لبنان پر حملے کا منصوبہ ملتوی کر دیا۔ اگر میدان جنگ کو لبنان تک پھیلانے کا منصوبہ سنجیدہ ہے تو صیہونی شام کے جنوب اور سرحدی خطوط تک جنگ کو وسعت دے کر حزب اللہ کو فوجی لاجسٹک امداد کی منتقلی کو روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں آنے والے دنوں میں شام میں مزاحمت سے متعلق مشاورتی یونٹوں، ہتھیاروں کے کارخانوں اور گوداموں پر صیہونی فضائی حملوں میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ 

اس بنیاد پر شام میں مزاحمتی نیٹ ورک کے ارکان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مزاحمت کے امکانات اور سہولیات کے تحفظ کے سلسلے میں ماضی کی نسبت زیادہ چوکس رہیں۔

نتیجہ سخن

 مصیاف اڈے پر صیہونی حملے کے بعد دمشق نے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا جس میں شام کے مختلف فضائی، انٹیلی جنس اور الیکٹرانک وارفیئر کے شعبوں کے کمانڈروں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی تاکہ اس واقعے کے آپریشن کے عمل اور طریقہ کار کا جائزہ لیا جا سکے۔

غزہ جنگ کے آغاز اور اسرائیل کے خلاف مزاحمتی گروپوں کی کارروائیوں کے بعد سے دمشق نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے اور مقبوضہ گولان میں ایک نئے محاذ کی تشکیل کے لیے زمین فراہم کی ہے۔

 اسرائیلی فوج کی پروپیگنڈہ مشین کا ایک مقصد مسلسل جھوٹ کا سہارا لینا ہے۔ اس طرح کے منصوبے سے نمٹنے کے لیے مزاحمتی محاذ کے میڈیا کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی خبروں کی اشاعت یا دوبارہ اشاعت کے لیے حساس ہو اور معتبر ذرائع سے خبر کی تصدیق کے بعد اس خبر کو سامعین تک پہنچائے۔