مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: چھے صہیونی قیدیوں کی لاشیں ملنے پر مقبوضہ علاقوں میں عوامی مظاہروں کا ایک نیا دور شروع ہوگیا ہے، جن میں نیتن یاہو کی اسرائیلی افواج کے مصر کے ساتھ سرحدی پٹی (فلاڈیلفیا) میں موجود رہنے کی شرط سے دستبرداری کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
دوحہ-قاہرہ مذاکرات کی شائع شدہ معلومات کی رو سے ایسا لگتا ہے کہ تنازعے کے فریقین تقریباً تمام شقوں پر ایک عمومی معاہدے پر پہنچ چکے ہیں اور صرف ان پر عمل درآمد کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں۔ تاہم نیتن یاہو کی جانب سے مذکورہ سرحدی لائن سے قابض فوج کو نہ ہٹانے پر اصرار حماس کو قابض افواج کے ساتھ کسی بھی معاہدے کو مسترد کرنے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 کو غیر مشروط طور پر قبول کرنے کے لیے صیہونی حکومت پر عالمی برادری سے دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرنے کا سبب بنا ہے۔
اس متنازعہ مسئلے نے نہ صرف حماس یا ثالثی کرنے والے ملکوں کی تشویش کو بڑھایا ہے بلکہ اسرائیلی سکیورٹی سروسز کے سربراہان اور فوجی کمانڈروں نے بھی خدشہ ظاہر کیا کہ تل ابیب کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اور قیدیوں کو زندہ واپس کرنے کے لیے انہیں جنگ بندی کے معاہدے کو جلد قبول کرنا ضروری ہے۔
نیتن یاہو اور قابض حکومت کی سکیورٹی کابینہ کے ارکان کے درمیان سب سے اہم اختلاف نیتساریم کوریڈور اور فلاڈیلفیا میں اسرائیلی فوج کی موجودگی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کا خیال ہے کہ مذکورہ علاقے حماس کی اہم شاہراہیں ہیں اور اگر یہ صیہونی فوج کے کنٹرول میں نہ رہے تو حالیہ مہینوں میں حاصل کی گئی اسرائیل کی تمام (مزعومہ) کامیابیاں ضائع ہو جائیں گی۔
انہوں نے کابینہ کے حالیہ اجلاس میں اپنے اراکین سے کہا کہ وہ ایک ایسے منصوبے کے لیے ووٹ دیں جو فلاڈیلفیا کے محور میں اسرائیلی فوج کی موجودگی کو جواز فراہم کرتا ہو۔ تاہم اس ووٹنگ کے دوران گیلنٹ نے مخالفت میں ووٹ دیا جب کہ بین گوئر نے ووٹ سے اجتناب کیا۔ نیتن یاہو اس شرط پر اصرار کرتے ہیں لیکن موساد اور شن بیٹ کے سربراہان ڈیوڈ بارن اور رونان بار کا خیال ہے کہ اس صورت حال کے جاری رہنے سے صہیونی قیدیوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
نیتن یاہو اور صہیونی حکام کے درمیان دوسرا اہم اختلاف رہائی پانے والے قیدیوں کی تعداد پر ہے۔
نیتن یاہو کا خیال ہے کہ اگر بڑی تعداد میں فلسطینی قیدیوں بالخصوص اس کے سیاسی رہنماؤں اور فوجی کمانڈروں کو رہا کیا گیا تو اسرائیل کی داخلی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے جب کہ دوسری جانب اسرائیل کے جنگی وزیر کا خیال ہے کہ سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے تل ابیب کے پاس اس مسئلے کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس اختلاف کا دائرہ کار فلسطینی قیدیوں کو ملک بدر کرنے کے خیال میں دیکھا جا سکتا ہے۔ صہیونی دائیں بازو کے ممبران رہائی پانے والے قیدیوں کو یورپی ممالک، ترکی اور قطر ڈی پورٹ کرنا چاہتے ہیں، لیکن گیلنٹ اور سکیورٹی حکام کا خیال ہے کہ یہ مستقبل قریب میں اسرائیل کے لیے بین الاقوامی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
اسی طرح ترجیحات کی تفہیم میں فرق کو نیتن یاہو، گیلنٹ، بارنے اور بار کے درمیان اختلاف کی بنیادی وجہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم کے طور پر، نیتن یاہو میدان میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو برقرار رکھنے اور کابینہ کو تحلیل نہ کرنے جیسے مسائل پر توجہ دیتے ہیں، جب کہ فوجی کمانڈرز اور سکیورٹی افسران، بین الاقوامی دباؤ کے زیر اثر، کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات میں مزید لچک کا مطالبہ کرتے ہیں۔
تاہم نیتن یاہو نے اپنے وزراء پر واضح کر دیا ہے کہ اگر انہیں قیدیوں اور فلاڈیلفیا راہداری کے تحفظ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے تو وہ یقیناً دوسرے آپشن کا انتخاب کریں گے۔
شاید اسی وجہ سے موساد کے سربراہ نے قیدیوں میں سے ایک کی والدہ سے ملاقات میں بتایا کہ نیتن یاہو حکومت میں قیدیوں کے تبادلے پر کوئی معاہدہ طے پانے کے امکانات کم ہیں۔
چھے صہیونی قیدیوں کی لاشیں ملنے کے بعد یکم ستمبر کی شام 350,000 سے زائد افراد مقبوضہ فلسطین کی سڑکوں پر آکر حماس کے ساتھ جلد معاہدے کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔
گزشتہ 10 ماہ کے تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب نیتن یاہو امریکہ یا رائے عامہ کے شدید دباؤ میں ہوتے ہیں تو وہ مقبوضہ فلسطین سے باہر بحران پیدا کر کے اپنے مخالفین اور ناقدین کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر غیر قانونی حملہ اور شہید ہنیہ کا قتل عین اس وقت ہوا جب نیتن یاہو پر جنگ بندی قبول کرنے اور غزہ میں تنازعہ ختم کرنے کے لیے شدید دباؤ تھا۔
اس بنیاد پر مزاحمتی محور کے ارکان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیتن یاہو کی سیاسی چال کو سمجھتے ہوئے "آمادہ باش" رہیں اور صہیونیوں کو کسی نئے ایڈونچر یا حماقت کی اجازت نہ دیں۔
دوسرے لفظوں میں نیتن یاہو مزاحمتی رہنماؤں کے قتل یا لبنان یا دیگر علاقوں میں حماس کے مراکز پر حملے کرکے علاقائی کشیدگی میں اضافہ کرکے قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات کو ناکام بنانے کی جانب ایک بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں۔
نتیجہ کلام
غزہ میں حماس کی قید میں موجود 103 اسرائیلیوں کی عدم واپسی صیہونی رجیم کے تمام سیاسی اور فوجی حکام کی سیاسی زندگی کے خاتمے پر منتج ہو سکتی ہے۔
اب، قیدیوں کے کچھ خاندان صیہونی حکام کو ان افراد کی موت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور وہ نیتن یاہو کو عملی طور پر اقتدار سے ہٹانے کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹیوں سے بن گورین ہوائی اڈے تک عام ہڑتال کی کال نیتن یاہو کے خلاف اسرائیل میں غم و غصے کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ غاصب وزیر اعظم اور اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کے خلاف عوامی رائے عامہ کی تحریک کے ساتھ، یہ ممکن ہے کہ بائیڈن انتظامیہ جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنے کے لیے تل ابیب پر دباؤ ڈالے گی۔ اگرچہ غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف تاریخ کے سب سے وحشیانہ جرائم کے ارتکاب میں امریکہ کو اسرائیل کا دست راست سمجھا جاتا ہے۔
جنگ بندی معاہدے کے عمل میں سب سے اہم رکاوٹ نیتن یاہو کی جانب سے "کابینہ کے خاتمے" اور نیشنل پاور پارٹی کے سربراہ بین گوئر کی حکومت سے علیحدگی کا خدشہ سمجھا جا سکتا ہے۔
اگرچہ روزنامہ "معاریو" کے حالیہ سروے کے مطابق نتن یاہو کے پاس ممکنہ انتخابات میں ایک اچھا موقع ہے، لیکن ان کے اور ان کے اتحادیوں کے دوبارہ جیتنے کے لیے ابھی بھی بہت سے چیلنجز باقی ہیں۔ ایسے میں لگتا ہے کہ نیتن یاہو امریکہ اور رائے عامہ سے اس بات کی ضمانت مانگ رہے ہیں کہ اگر وہ جنگ بندی اور کابینہ کے ممکنہ خاتمے کو تسلیم کر لیتے ہیں تو انہیں نہ صرف کرپشن کیس کی وجہ سے گرفتار نہ کیا جائے، بلکہ انہیں الیکشن جیتنے اور وزیر اعظم رہنے کا بھی موقع دیا جائے۔