مہر نیوز کے مطابق، 29 اگست1981 میں آج کے دن، منافقین خلق آرگنائزیشن نے ایران کے وزیر اعظم کے دفتر پر دھماکہ کیا جس میں ملک کے صدر رجائی، وزیر اعظم باہنر اور کئی دیگر عہدیدار شہید ہوئے۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں یوم شہادت سے ایک ہفتہ قبل ملک کے اہم سیاسی رہنماؤں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 'حکومتی ہفتہ' کے طور پر منایا جاتا ہے۔
30 اگست 1981 کو ایک مہلک دھماکا اس وقت ہوا جب ایک متاثرہ شخص نے بارود سے بھرا ایک بریف کیس کھولا جو مسعود کشمیری، مجاہدینِ خلق دہشت گرد گروپ کے ایجنٹ تھے، لایا تھا۔
یہ حملہ دوپہر کو پاسچر اسٹریٹ پر واقع ایرانی وزیر اعظم کے دفتر میں ایک غیر معمولی میٹنگ کے دوران ہوا جس میں صدر رجائی، وزیر اعظم باہنر اور مختلف فوجی اور سیکورٹی حکام شریک تھے۔ حملہ آور نے سیکیورٹی اہلکار ظاہر کرتے ہوئے حاضرین کو چائے پلائی اور بم سے بھرا بریف کیس میز کے نیچے رکھ دیا۔ بعد میں ہونے والی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ بریف کیس میں ایک کلوگرام سے زیادہ TNT موجود تھا، جو کہ دو ماہ قبل ہفت تیر بم دھماکے کی طرح تھا۔
تاہم دونوں حملوں کی تفصیلات بعد میں ہی سامنے آئیں، جس کی وجہ سے حفاظتی اقدامات کو نافذ کرنا ناممکن ہو گیا۔
دہشت گرد نے بم رکھنے کے بعد انٹیلی جنس یونٹ کے سربراہ خسرو تہرانی کے ساتھ مختصر بات کی، پھر ایک فوری معاملہ کا دعویٰ کرتے ہوئے میٹنگ چھوڑ دی، اور جا کر پاسچر اسکوائر پر اپنے ساتھیوں سے جا ملا، جنہوں نے اسے فرار ہونے میں مدد دی۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ جب ایک متاثرہ شخص نے بریف کیس کھولا تو بم پھٹ گیا جس سے عمارت کی پہلی اور دوسری منزل تباہ ہو گئی۔ دھماکے کے نتیجے میں 8 افراد شہید اور 23 زخمی ہوئے، جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا۔ شدید جھلسنے کی وجہ سے باہنر اور رجائی کی شناخت بعد میں دانتوں کے ریکارڈ کے ذریعے کی گئی۔
باہنر اور رجائی کون تھے؟
دہشت گردانہ حملے کے دو سب سے نمایاں شہیدوں میں ایران کے صدر محمد علی رجائی اور وزیر اعظم محمد جواد باہنر تھے۔ رجائی جو کہ تربیت معلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اور ریاضی کے استاد تھے جوکہ 48 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ 1979 کے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد، وہ سب سے پہلے سات ماہ تک وزیر تعلیم کے طور پر مقرر ہوئے۔ پھر 1980 کی دہائی کے وسط میں وہ تہران کے عوام کے نمائندے کے طور پر ایرانی پارلیمنٹ میں گئے۔ اور 15 ماہ تک اس عہدے پر فائز رہے۔ رجائی کو وزیر اعظم بھی مقرر کیا گیا اور ابوالحسن بنی صدر کو صدارت سے ہٹانے کے بعد وہ 13 ملین سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسرے صدر منتخب ہوئے۔
باہنر ایک ممتاز اسلامی ماہرِ تھے جنہوں نے حوزہ علمیہ قم اور تہران یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، جہاں انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ جب وہ شہید ہوئے تو ان کی عمر 47 سال تھی۔ انہوں نے آیت اللہ محمد حسین بہشتی کی شہادت کے بعد اسلامی جمہوریہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے طور پر بھی کام کیا اور وہ آئین کے ماہرین کی اسمبلی کے رکن بھی رہے جس نے نئے ایرانی آئین کا مسودہ تیار کیا۔ باہنر اور رجائی دونوں کو، پہلے ہفت تیر بم دھماکے کے متاثرین کے ساتھ، تہران کے جنوب میں واقع قبرستان بہشت زہرا میں دفن کیا گیا۔ اس دھماکے میں باہنر اور رجائی کے علاوہ چھے دیگر افراد بھی شہید ہوئے۔
ایرانی عدالت نے منافقین خلق دہشت گردی کیس میں 15ویں مقدمے کی سماعت کی
جولائی کے اوائل میں، تہران میں منافقین خلق دہشت گرد گروہ کے ارکان کے جرائم کی سماعت کا 15 واں ٹرائل سیشن منعقد ہوا۔
سیشن کی صدارت کرنے والے جج دہقانی نے کہا کہ ایران کی اسلامی تعزیرات کے تحت مقدمے کے تمام مدعا علیہان کو پہلے ہی عدالتی نوٹس بھیجے جا چکے ہیں، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مدعا علیہان نے نہ تو کسی وکیل کی خدمات حاصل کی ہیں اور نہ ہی عدالت میں دفاع داخل کیا ہے۔
منافقین خلق نے 1979 میں اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد سے ایرانی شہریوں اور حکومتی اہلکاروں کے خلاف متعدد دہشت گرد حملے کیے ہیں۔ پچھلی چار دہائیوں کے دوران دہشت گردانہ حملوں میں شہید ہونے والے تقریباً 17,000 ایرانیوں میں سے تقریباً 12,000 اس دہشت گرد گروہ کی کارروائیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔