مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ پر اسرائیلی حملے کے بعد مشرق وسطی میں جاری بحران مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ مبصرین کے مطابق حماس کے سربراہ کی شہادت کے بعد صہیونی حکومت کے لئے حالات مزید گھبیر ہوگئے ہیں۔
پاکستانی سینیٹ کے سابق رکن اور نامور سیاست دان مشاہد حسین سید نے حماس کے سربراہ پر صہیونی حملے کے بعد کہا کہ ہم فلسطینی عوام کے غم میں شریک ہیں۔ اسماعیل ہنیہ ایک عظیم مجاہد اور تحریک آزادی کے رہنما تھے جنہوں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف بڑے اقدامات کئے تھے۔ ان کو اسرائیل نے ایران کے اندر شہید کردیا۔ اسرائیل نے اس سے پہلے بھی حماس کے اعلی رہنماوں کو شہید کیا ہے۔ 2004 میں غزہ میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کو شہید کیا تھا۔ طوفان الاقصی کے بعد یہ فلسطیی جنگ آزادی کے لئے بڑا دھچکہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد مشرق وسطی میں کشیدگی مزید بڑھے گی۔ اسماعیل ہنیہ پر حملے کے ذریعے بیجنگ میں فلسطینی تنظیموں کے درمیان چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں۔ درحقیقت اسرائیل نے دوسرے ملک کے اندر حملہ کیا ہے۔ اس سے پہلے شام میں بھی ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد کشیدگی بڑھے گی۔
سابق سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ یہ حملہ ایران کی خودمختاری پر حملہ ہے۔۔ ایران براہ راست جواب دے سکتا ہے تاہم اس وقت ایران میں انتقال اقتدار کا عمل جاری ہے۔ نئی حکومت پوری طرح نہیں بنی ہے۔ انہوں نے ایسا وقت انتخاب کیا ہے کہ ایران میں اس اقتدار کا خلاء موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ ایران میں سپریم لیڈر کی قیادت میں مضبوط سسٹم ہے لیکن حکومت مکمل نہیں ہے۔ صدر رسمی طور پر فعال اور اقتدار میں ہونا چاہئے۔ میرے خیال میں ایران اس کا جواب ضرور دے گا جو براہ راست بھی ہوسکتا ہے اور بالواسطہ بھی ہوسکتا ہے۔ اسرائیل نے مشرق وسطی میں کراس بارڈر دہشت گردی کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس طرح بھارت ہمارے خطے میں کررہا ہے۔