مہر خبررساں ایجنسی،دینی ڈیسک: محرم کا مہینہ، تلوار پر خون کی فتح کا مہینہ ہے، جس میں ایک عظیم واقعہ رونما ہوا جو ظلم و ستم کے خلاف جنگ کا بے مثال نمونہ تھا۔ امام حسین علیہ السلام کا قیام اسلام کی تاریخ اہم واقعہ ہے۔
اس واقعہ کے صدیوں بعد عاشورہ کا زندہ رہنا قیام کی گہرائی اور اس عظیم تحریک کی تاثیر کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ امام حسین نے اپنے 72 ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایسی مثال قائم کی جو امام عالی مقام کے بقول حقیقی اسلام سے انحراف کو روکنے کا باعث ہے۔ یزید اور بنی امیہ کے خلاف قیام عاشورہ کے بارے میں اسلامی علوم اور ثقافتی تحقیقاتی ادارے کے سربراہ حجت الاسلام نجف لک زایی نے مہر نیوز سے گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ عاشورا دینی تحریک سے بالاتر ہے چنانچہ امام حسین علیہ السلام نے اس کو آزادی کی تحریک قرار دیا تھا۔ اگر واقعہ عاشورا کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ سیاسی طاقت اور اقتدار سے شروع ہوتا ہے۔ معاویہ کی موت کے بعد یزید تخت نشین ہوا اور معاشرے کے اہم افراد مخصوصا امام حسین علیہ السلام سے بیعت لینے کی کوشش کی۔ حاکم مدینہ نے امام عالی مقام کو بلاکر یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا لیکن آپ نے انکار کیا اور فرمایا کہ یزید جیسے کی بیعت سے اسلام جڑ سے ختم ہو جائے گا۔ اسلام میں عزت اور ذلت کی بہت اہمیت ہے۔ مومن کبھی ذلت برداشت نہیں کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ واقعہ کربلا آغاز سے اختتام تک حکمرانی سے متعلق ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا حکومت وہ نہیں جو یزید چاہتا ہے۔ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ہے۔ طاغوت ہمیشہ انسان کو نور سے ظلمت کی طرف لے جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں الٰہی حکمران ظلمت اور تاریکی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو روشنی کی طرف لاتا ہے۔ چنانچہ زیارت اربعین میں پڑھتے ہیں کہ آپ نے لوگوں کو ظلمت اور حیرانگی سے نجات دلانے کے لیے قیام کیا۔
حجت الاسلام لک زایی نے کہا کہ کربلا ظلم کے خلاف عدالت اور خیانت کے خلاف امانت کا نام ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے ادراک کیا تھا کہ معاشرہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات سے دور ہوچکا ہے اور یزید جیسا حاکم بننے کی کوشش کررہا ہے جو لوگوں کے بے دین ہونے کی علامت ہے کیونکہ عوام کے دین کے مطابق حکمران مسلط ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی عوام کے لئے عاشورا الہام بخش ہے کیونکہ امام خمینی نے اپنی تحریک کا آغاز محرم سے کیا اور محرم اور صفر کو اسلام کو زندگی عطا کرنے والے مہینے قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ جب حقیقی حاکم سامنے نہ آئے تو جعلی حکومتیں تشکیل پاتی ہیں۔ ایسے حکمران جو دین لوگوں کے سامنے بے شرمی کے ساتھ ظالم صہیونی حکومت کا ساتھ دیتے اور کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ ہزاروں شیرخوار بچے ان کی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے ہیں لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر انبیاء اور ائمہ سے حکومت چھینی جائے تو طاغوت وجود میں آتا ہے چنانچہ پیغمبر اکرم کی رحلت کے مختصر عرصے بعد ایسا ہوا۔ قرآن رسول اکرم کو دو طرح کے دشمنوں سے لڑنے کا حکم دیتا ہے کفار اور منافقین۔ عاشورا منافقین کے ساتھ قیام کا نام ہے۔