مہر نیوز رپورٹر کے مطابق، آیت اللہ سید احمد خاتمی نے تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کے خطبوں میں کہا: گزشتہ ہفتے امام رضا علیہ السلام کا یوم ولادت تھا جو شہید صدر اور ساتھیوں کے داغ مفارفت میں بدل گیا۔
انہوں نے شہید صدر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جناب رئیسی امام رضا علیہ السلام سے محبت کرتے تھے اسی وجہ سے خدا نے ان کی محبت کو عوام کے دلوں میں جگہ دی اور یہ تشییع جنازہ جو تبریز، قم، تہران اور مشہد میں ہوئی یہ ان سے لوگوں کی بے پناہ محبت کا اظہار تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کہ جس کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں، نے یوں اظہار کیا: ایرانی قوم نے پوری یکجہتی کے ساتھ صدر کی تشییع کی، جو شخص خدا کو اپنے دل میں بسا لے وہ لوگوں کے دلوں ایسے راج کرتا ہے اور رئیسی کا بار آخرت عوامی خدمت سے بھرا ہوا ہے۔
امام جمعہ تہران نے مزید کہا کہ ان 33 مہینوں میں جناب رئیسی کو آرام کرتے نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میرا دل امام رضا علیہ السلام کے ساتھ ہے لیکن مجھے خدمت کے لیے عوام میں جانا ہے اور خدا نے ان کی مقبولیت کو لوگوں کے دلوں میں جگہ دی، لہذا اس پرشکوہ عوامی تشییع جنازہ کا مادی تجزیہ نہیں کرنا چاہیے۔
شہدائے خدمت ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک تھے
آیت اللہ خاتمی شہدائے خدمت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ شہدائے خدمت کی تعظیم کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں، وہ ہماری آنکھوں کا نور تھے اور میں آپ لوگوں کی نمائندگی میں ہیلی کاپٹر حادثے میں ڈہید ہونے والے اہلکاروں کے پسماندگان کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں۔
انہوں نے تبریز کے امام جمعہ آیت اللہ العظمیٰ آل ہاشم کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آیت اللہ سید محمد علی آل ہاشم اپنے جد امجد پیامبر اکرم ص کی طرح محور اتحاد کے محور کے جد امجد تھے جو دلوں کو آپس میں جوڑتے تھے، یہی وجہ ہے کہ مشرقی آذربائیجان سے مجلس خبرگان کے انتخابات میں انہیں آٹھ لاکھ لوگوں نے آپ کو ووٹ دیا، جو کہ ایک اس صوبے کے لوگوں کی قدردانی اور ان سے عقیدت کی علامت ہے۔
انہوں نے وزیر خارجہ شہید امیر عبداللہیان کا تذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ وزیر خارجہ امیر عبداللہیان صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سطح کے شائستہ وزیر خارجہ تھے۔ غزہ پر غاصب صیہونی حکومت کے ان سات ماہ سے جاری جرائم کے دوران انہیں فلسطینی وزیر خارجہ کہاجاتا تھا کیونکہ وہ ہر عالمی فورم میں غزہ کے عوام پر ہونے والے ظلم و ستم کی بات کرتے تھے اور ان کے حق میں آواز اٹھاتے تھے۔