مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک - آذر مہدوان: غزہ میں جاری نسل کشی اسرائیل کے آٹھ دہائیوں کے جرائم کا سیاہ ترین ریکارڈ بن گئی ہے کہ جہاں صیہونیوں کے وحشیانہ حملوں کے علاوہ غزہ کے عوام کو خوراک اور ادویات کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے جس سے ایک انسانی المیے کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
اس سلسلے میں مہر خبررساں ایجنسی کے ترک سیکشن نے غزہ میونسپلٹی کے ترجمان حسنی مہنا کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں اس خطے کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق آگہی حاصل کی ہے۔
غزہ کا اصل بحران
انجینئر "حسنی مہنا" نے شروع میں بتایا کہ غزہ کے باشندے ایک حقیقی بحران کا شکار ہیں، یہاں تک کہ پینے کا پانی ان کے گھروں تک بہت کم مقدار میں پہنچتا ہے اور کئی علاقوں میں پینے کے پانی تک رسائی ممکن نہیں ہے اور شہریوں کو رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پانی کی تھوڑی مقدار میں فراہمی نہایت تکلیف دہ امر ہے۔ یہ قلت اس حد تک ہے کہ فلسطینی خاندانوں کو دستیاب قابل استعمال پانی کی اوسط مقدار 5 لیٹر یومیہ ہے جب کہ بین الاقوامی اداروں کے جائزے کے مطابق انسانوں کو روزانہ 120 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن غزہ کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور صیہونی رجیم نے اس علاقے پر حملے کے آغاز سے ہی پانی کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے کو ہی تباہ کر دیا ہے۔
اسرائیلی طیاروں نے غزہ کے پانی کے کنوؤں اور سمندری پانی کو صاف کرنے کی سہولیات پر بمباری کی ہے، جس سے غزہ کے 85 فیصد آبی وسائل کو تباہ ہوئے ہیں اور شدید آبی بحران پیدا ہوگیا ہے۔
غزہ شہر میں پیاس کا بحران
انہوں نے واضح کیا کہ غزہ کے آبی ذرائع کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ صیہونی جارحیت پسندوں نے مختلف علاقوں کے پانی کی سپلائی لائنوں کو بھی نشانہ بنایا ہے اور اس طرح کئی علاقوں کو پانی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اگر پینے کا پانی بھی واٹر سپلائی نیٹ ورکس سے منسلک ہو جائے تو اس کی وجہ سے کئی علاقوں کو پانی کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے غزہ کی بلدیہ پانی کے کنوؤں کو بہت محدود تعداد میں استعمال کرنے پر مجبور ہوگئی ہے اور یہ استعمال بھی کچھ گھنٹوں تک محدود ہے تاکہ تمام علاقوں کے شہریوں کو پانی میسر ہو۔
غزہ کے بنیادی ڈھانچے کی وسیع پیمانے پر تباہی
غزہ میونسپلٹی کے ترجمان نے اس جنگ میں مکانات، اسکولوں اور اسپتالوں کی تباہی کے اعدادوشمار کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ غزہ شہر اس پٹی کا سب سے بڑا شہر شمار ہوتا تھا، جو ایک طرح سے اس علاقے کا انتظامی دارالحکومت تھا۔ تمام ادارے، یونیورسٹیاں، اکیڈمیاں اور حکومتیں اور بین الاقوامی کمپنیوں اور اداروں کے مرکزی مراکز اس شہر میں تھے۔ جس کی وجہ سے غزہ شہر کو ایک منفرد خصوصیت حاصل تھی، اسی لئے صیہونی حکومت نے اس شہر کو تقریباً مکمل طور پر تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس شہر میں صیہونی غاصبوں کے حملوں سے ہونے والی تباہی کی مقدار بہت زیادہ ہے اور بہت سے ٹاورز، اپارٹمنٹس اور رہائشی عمارتیں جن میں سیکڑوں فلسطینی مقیم تھے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور اس شہر کے مکین زیادہ تر بے گھر ہو کر رہ گئے ہیں۔
حسنی مہنا نے کہا کہ قابض فوج نے غزہ میں بڑی تعداد میں مساجد، یونیورسٹیوں، تعلیمی اداروں یہاں تک کہ پانی کے وسائل اور صحت کے مراکز کو بھی تباہ کر دیا تاکہ صحت کی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے خدمات کا امکان ہی ختم ہو جائے۔ اس طرح غزہ کے 650,000 شہریوں کو خدمات فراہم کرنے کا امکان ختم ہو گیا ہے، حالانکہ اس وقت غزہ میں تقریباً 350,000 فلسطینی شہری موجود ہیں۔
غزہ کے اس سول عہدیدار نے کہا کہ صیہونی حکومت کے حملوں کے تسلسل کے نتیجے میں یہ شہر مکمل طور پر زندگی کی رونقوں سے محروم ہوگیا ہے۔
اسرائیلی قابضوں نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے، رہائشی مکانات اور خدماتی مراکز کو براہ راست نشانہ بنایا ہے۔ وہ غزہ میں نظر آنے والے ہر انسان، جانور اور پودے پر بھی حملہ کرتے ہیں۔ صیہونیوں نے گھروں کو پانی، ایندھن کی فراہمی، گیس اور بجلی کی فراہمی تک منقطع کر رکھی ہے۔
غزہ کے تمام اعلیٰ اور متوسط طبقے مفلوج ہو چکے ہیں
غزہ کی بلدیہ کے اس عہدیدار نے کہا: اگرچہ صہیونیوں نے کچھ بین الاقوامی امداد کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے لیکن یہ امداد بہت محدود ہے اور غزہ کی پٹی اور خاص طور پر غزہ شہر کے باشندوں کی ضروریات کو پورا نہیں کرتی۔ غزہ شہر مکمل اور انتہائی شدید محاصرے کا شکار ہے اور غزہ کی واحد فعال کراسنگ مصر کی سرحد پر واقع رفح کراسنگ ہے جس سے رفح، خان یونس اور وسطی صوبے کو امداد پہنچائی جاتی تھی لیکن یہ امداد طویل عرصہ گزرنے کے باوجود غزہ شہر تک نہیں پہنچ سکی۔ بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں غزہ شہر میں انسانی، ماحولیاتی اور طبی آفات کے باعث حال ہی میں انسانی امداد کے چند محدود ٹرکوں کو اس شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود اس شہر میں پیاس اور بھوک کا بحران بدستور موجود ہے۔ اور یہ امداد بہت کم رہی ہیں۔
آج غزہ شہر کے تمام لوگ معاشی بحران کا شکار ہیں، اور سب کے سب غریب ہوچکے ہیں اور ان سب کو انسانی امداد کی ضرورت ہے اور جنگ کے نتیجے میں، ان کی کوئی آمدنی نہیں ہے، نجی شعبے کا کاروبار مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔
غزہ شہر کے بازاروں کی تباہی
انہوں نے کہا کہ شہر کے بازار بھی تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ الشجائیہ مارکیٹ کو صیہونی حکومت نے زمین بوس کردیا تھا اور شہر کے وسط میں واقع فلسطین اسکوائر میں واقع الزاویہ مارکیٹ بھی تباہ ہوچکی ہے۔
حسنی مہنا نے مزید کہا کہ صیہونی حملہ آور شہر کے بازاروں کو نشانہ بنا کر لوگوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس شہر کے حالات زندگی کو مکمل طور پر تباہ کر رہے ہیں تاہم شہر کے مکینوں نے مختلف علاقوں میں موبائل مارکیٹوں کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی زمینوں پر قائم ہیں اور اس شہر میں اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتے۔ یہ مسئلہ صیہونی حکومت کے لیے ایک چیلنج اور غزہ کے عوام کی استقامت کو مضبوط کرنے کی علامت بن گیا ہے تاکہ وہ اس شہر میں اپنی بقا جاری رکھ سکیں۔ اس کے باوجود صہیونی غاصب ہمیشہ موبائل فروشوں اور شہریوں کا پیچھا کرتے اور انہیں نشانہ بناتے ہیں جو اپنا بنیادی سامان حاصل کرنے کے لیے گھروں سے نکلے ہیں۔ وہ ان موبائل مارکیٹوں کو ڈرون اور کواڈ کاپٹروں سے نشانہ بناتے ہیں۔
غزہ میں شدید اقتصادی بحران
غزہ کے میئر کے مطابق یقیناً کچھ بازاروں میں جزوی خرید و فروخت ہو رہی ہے لیکن یہ بہت محدود ہے، کیونکہ بنیادی اشیا کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور غزہ کے گھرانے طویل عرصے سے اپنی قوت خرید کھو چکے ہیں۔ غزہ میں طویل مدتی جنگ ہے۔ وہ ایک تباہ کن اقتصادی بحران سے نمٹ رہے ہیں جس کے لیے تمام عرب اور بین الاقوامی ممالک اور عالمی برادری کی مداخلت کی ضرورت ہے تاکہ صیہونی رجیم پر جنگ بند کرنے اور غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے لیے دباؤ بڑھایا جائے۔
انہوں نے غزہ میں اشیا کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے لوگوں کے پاس مستقل آمدنی نہیں ہے کیونکہ اس شہر میں پیسوں کی گردش ٹھیک طریقے سے نہیں ہوتی ہے۔ اگرچہ شہر میں بینک جزوی طور پر فعال ہیں، لیکن پیسوں کی اصل گردش نہیں ہوتی ہے، تھوڑی بہت گردش صرف بیچنے والے اور خریدار ہی کرتے ہیں جو مختلف علاقوں میں سرگرم ہیں، لیکن تاجر اپنے کاروبار کھونے کی وجہ سے کوئی کردار ادا نہیں کر پا رہے۔