مہر خبررساں ایجنسی،دینی ڈیسک؛ آج حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت کا دن ہے۔ جب آپ کے والد گرامی حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کو کوفہ میں شہید کیا گیا تو لوگوں کے اصرار پر آپ نے خلافت قبول کی اور اپنے بابا کی سیرت پر عمل کرنا شروع کیا۔ معاویہ کی فتنہ انگیزی اور اس کے سپاہیوں کی شرارتوں کے علاوہ امام عالی مقام کے لشکر کے اہم سرداروں نے آپ سے خیانت کی۔ دوسری طرف آپ کے لشکر والے جنگ اور خون ریزی سے تنگ آچکے تھے اسی لئے آپ نے اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کی مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے معاویہ کے ساتھ صلح کیا اور حکومت کو وقتی طور پر اس کے سپرد کیا۔
صلح امام حسن علیہ السلام کے عوامل
امام مجتبیٰ علیہ السلام کی خلافت کا آغاز بزرگ صحابہ کرام کی بیعت سے ہوا جو عراق اور دیگر سرزمینوں حتی کہ مکہ، مدینہ، یمن اور ایران کے کچھ حصوں میں مقیم تھے اور دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہوئے۔ البتہ شام کے لوگوں نے معاویہ کی قیادت میں اس کی مخالفت کی اور جنگ کے لیے عراق چلے گئے اور اس کے نتیجے میں ایسے حالات پیدا ہوگئے جو صلح کاپیش خیمہ ثابت ہوئے۔
اسلامی خلافت کے مرکز کی صورت حال کا صحیح تجزیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کی خلافت کے آخری مہینوں میں عوام کے حالات کی صحیح عکاسی کی جائے جس کا بہترین ثبوت نہج البلاغہ کے 27 ویں خطبے میں ملتا ہے۔ اس خطبے میں حکمرانی کے اہم ترین رکن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اس خطبے میں امام علیہ السلام کھل کر اہل کوفہ پر تنقید کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کی سستی، کاہلی، انتشار اور معاہدے کی خلاف ورزی کے باعث وہ دشمن کے دوست اور خلیفہ مسلمین سے بدگمان ہوئے۔ جیسا کہ امیر المومنین (ع) نے فرمایا، "میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے پیروکاروں میں نظم و ضبط کا فقدان ہے اور وہ باغی اور سرکش ہیں، اور حساس لمحات میں وہ من مانی میں کچھ بھی کرتے ہیں اور نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔امام نے ان کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اے وہ لوگ جو ظاہر میں مرد ہیں جبکہ حقیقت میں کوئی مردانگی ان میں نہیں ہے ان کے خواب بچوں کے خوابوں کی طرح ہوتے ہیں جو ہر چیز کے دلدادہ ہوتے ہیں اور فریب میں مبتلا ہوتے ہیں اور خطرے سے آنکھیں چراتے ہیں۔ ج) ان کی عقل و دانش حجلہ عروسی میں بیٹھی ہوئی دلہن کی طرح ہے جو عیش و عشرت کے سوا کسی چیز کا خیال نہیں کرتی۔
رمضان المبارک 40 ہجری میں آپ نے ایک ایسے معاشرے کی باگ ڈور سنبھالی جہاں بہت سے اشرافیہ اور لوگ جرات، ہمت اور مردانہ جوش نہ رکھنے کی وجہ سے ملامت کے مستحق تھے۔ امیرالمومنین علیہ السلام ان کو دیکھنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام ان کی حقیقی بیماری سے واقف تھے۔ آپ نے ان کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ شام والے باطل پر ہوتے ہوئے متحد جب کہ تم حق پر ہوتے ہوئے منتشر ہو۔
دور خلافت کے آغاز میں امام مجتبیٰ علیہ السلام کو صحابہ و تابعین سے بیعت کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے اکثر حق و باطل کے لشکر پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اقتدار اور دولت کی پیشکش کے سامنے وہ ہتھیار ڈال دیتے تھے۔ فتنے کے سامنے خاموشی اختیار کرنے کی عادت ڈالی تھی اور شامیوں کی جانب سے برپا کردہ فتنے کو قریب سے تماشائی بن کر نظارہ کرتے تھے۔ شمشیر کو غلاف میں رکھ لبوں کو سی دیتے تھے۔
امام مجتبی علیہ السلام اس کمزور ایمان والے گروہ کے ساتھ دلبرداشتہ تھے۔ جب موثر شخصیات کی خیانت بڑھ گئی اور لشکر حق سے لوگوں کے جدا ہونے کا سلسلہ بڑھا۔ اگرچہ ابتدائی لشکرکشی میں لشکر اسلام کو اچھی کامیابیاں نصیب ہوئیں تاہم معاویہ اور عمرعاص کی مکاری اور دھوکہ بازی کی وجہ سے لشکر والوں نے جنگ روکنے اور مزید خونریزی سے پرہیز کرنے کی صدا بلند کی۔ اس طرح حضرت امام حسن علیہ السلام نے 41 ہجری میں صلح کی۔
معاویہ کے ساتھ صلح میں امام کے ساتھیوں کا کردار
امام حسن علیہ السلام کے لشکر میں اتحاد اور ہماہنگی کا فقدان تھا۔ لشکر میں مختلف ذہنیت کے لوگ موجود تھے۔ کچھ فرمانبردار، کچھ خاموش احتجاج کرنے والے، بعض کھلم کھلا احتجاج کرنے والے، کچھ فریب میں آئے ہوئے جبکہ بعض خیانت کار بھی موجود تھے۔ ان پانچ گروہوں کے بارے میں تفصیل سے تحریر کی گنجائش نہیں ہے۔ بدقسمتی سے مخلص اور وفادار ساتھی بہت کم تھے جن کے ساتھ کام کو آگے بڑھانا ناممکن تھا۔ ظاہری طور پر آپ کی بیعت کرنے والوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو لشکر حق اور باطل کے درمیان فرق کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔
اس تناظر میں میں امام کے سپہ سالاروں میں سے دو ممتاز شخصیات کا ذکر ضروری ہے؛ "قیس بن سعد" اور "عبید اللہ بہ عباس"۔ معاویہ نے دس لاکھ درہم قیس بن سعد کے پاس بھیج کر اپنے ساتھ ملنے کی پیشکش کی لیکن قیس نے رقم واپس کرتے ہوئے کہا کہ کیا میرا دین خریدنا چاہتے ہو؟ جبکہ یہی رقم عبید اللہ بن عباس کو دی تو اس نے اپنے ساتھ آٹھ ہزار کا لشکر لے کر معاویہ سے اتحاد کیا۔ دونوں امام حسن مجتبی علیہ السلام کے قریبی ساتھی تھے لیکن انجام مختلف تھا۔ قیس نے امام کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ لیکن عبید اللہ بن عباس نے اس عظیم خیانت کا ارتکاب کیا۔ اگرچہ بعض کا خیال ہے کہ اسے دھوکہ دیا گیا تھا، لیکن یہ دعویٰ غلط ہے، اگر یہ دھوکے کی بات ہے، تو وہ اپنے فیصلے کو درست کر سکتا تھا اور دھوکہ دہی کا علم ہونے کے بعد اصلاح کر سکتا تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عبید اللہ وہ شخص ہے جو امیر المومنین (ع) کے زمانے میں یمن میں امیر تھا، جسے معاویہ نے شدید زخمی کیا اور اس کے دو بچوں کے سر قلم کر دیئے۔ اس کے باوجود وہ لشکر اسلام سے پلٹ کر معاویہ کے ساتھ شامل ہو گیا۔
خواص کی خیانت کا نتیجہ
شیخ مفید نے کتاب الارشاد میں لکھا ہے کہ جب امام حسن علیہ السلام کو عبید اللہ بن عباس کی خیانت اور معاویہ کے ساتھ الحاق کا علم ہوا اور اپنے ساتھیوں کی کمزوری اور بے رغبتی کا مشاہدہ کیا تو انہیں احساس ہوا کہ اس کے شیعوں کی ایک چھوٹی سی تعداد کے ساتھ وہ شام کی بڑی فوج کے خلاف مزاحمت نہیں کر سکتے ہیں۔ بہرحال معاویہ نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد صلح کی شرائط پر پر عمل نہیں کیا اور باضابطہ اعلان کیاکہ میں نے تم سے اس لیے جنگ نہیں کی کہ تم نماز، روزہ، اور حج کرو، لیکن میں اس لیے لڑا کہ تم پر حکومت کرو ں۔ یہاں سے محمدی اسلام کے مقابلے میں اموی اسلام شروع ہوا۔ اسلام میں تحریف اور بدعت کی وجہ سے اشرافی گری، سستی اور کچھ ظاہری عبادتوں تک محدود رہنے کا سلسلہ فکر رائج ہوا۔
معاویہ کی حکومت میں حضر ت علی علیہ السلام اور حضرت امام حسن علیہ السلام کے قریبی دوستوں کو منظر عام سے ہٹایا گیا۔ حجر بن عدی اور عمرو بن حمق جیسوں کو شہید کیا گیا ۔ اس کے برعکس معاویہ کے ساتھ مل جانے والوں کی تعریف کے گن گائے جانے لگے۔ عبیداللہ بن زیاد کو ایک سخی شخص کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ حضرت امام حسن علیہ السلام نے صلح کے بعد کے ادوار میں لشکر حق و باطل کے درمیان صف بندی کی برقراری پر تاکید کی اور اپنے مناظروں میں معاویہ کے اہل بیت اطہار کی دشمنی کا کھل کر اظہار کیا۔ امام عالی مقام کے اس موقف کی وجہ سے اسلام محمدی کی حفاظت ممکن ہوئی۔