مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک: رمضان المبارک کے ساتویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں: اے اللہ، میری اس مہینے کے دنوں اور شب بیداریوں میں مدد فرما اور خطاؤں اور گناہوں سے محفوظ رکھ، اور اس مہینے میں مسلسل تیرا ذکر کرنے کی توفیق دے، اے گمراہوں کو ہدایت دینے والے۔
اللهُمَّ اعِنّی فیهِ عَلی صِیامِهِ وَقِیامِهِ، وَجَنِّبْنی فیهِ مِنْ هَفَواتِهِ وَ اثامِهِ، وَارْزُقْنی فیهِ ذِکرَک بِدَوامِهِ، بِتَوْفیقِک یا هادِی الْمُضِلّینَ»
آیت اللہ مکارم شیرازی ماہ مبارک رمضان کے ساتویں دن کی دعا کی شرح یوں فرماتے ہیں: رمضان المبارک کے ساتویں دن کی دعا کے اہم ترین نکات میں دینی عبادات کی توفیق حاصل کرنے کے اثرات کا بیان، اصلاح نفس میں ماہ رمضان کے کردار کی وضاحت، "ذکر" کا معنی اور اسے جاری رکھنے کے طریقے اور ہدایت اور توفیق کے درمیان تعلق کو بیان کرنا شامل ہے۔
حقیقی بیداری اور روزے کا دارومدار توفیق الہی کے حصول پر ہے
بلاشبہ دینی فرائض جیسے نماز اور روزے انجام دہی خدا کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
اگر ایمان اور اطاعت الٰہی کے بارے میں انسان کا نقطہ نظر ایسا ہے تو وہ نہ صرف اپنے آپ کو "خدا پر احسان جتلانے والے" نہیں سمجھتا، بلکہ ہمیشہ اپنے آپ کو خدا اور رسول (ص) کا "احسان مند" سمجھتا ہے۔ اس لیے عبادتیں محبت سے کرتا ہے اور اس کی اطاعت میں بصد شوق سختیاں جھلتا ہے۔ کیونکہ اس کی ہدایت ایک لطف ہے اور اس پر نبی (ص) کو بھیجنا دوسرا لطف ہے۔
لہٰذا عبادات میں لذت و سرور کی کمی کی صورت میں ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ شاید ہم نے اپنے نفس کو گناہوں اور حرام سے آلودہ کر لیا ہو اور اسے توبہ کے پانی سے نہ دھویا ہو، اسی وجہ سے اللہ نے ہمیں توفیق سے محروم رکھا ہے۔
رمضان خود سازی اور گناہوں سے بچنے کا سنہری موقع
رمضان المبارک کا مہینہ اور روزوں کا تربیتی پروگرام ایسا ہے کہ یہ انسان کے جسم اور روح کو گناہ کی آلودگی سے دھو دیتا ہے۔ درحقیقت رمضان المبارک کے روزے گناہوں اور عذاب الٰہی سے حفاظت کا ذریعہ ہیں۔
چنانچہ قرآن کریم رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روزوں کو واجب قرار دینے کے بعد کہتا ہے: تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔" اس طرح گناہ سے پرہیز کو روزے کے فسلفے کے طور پر ذکر کرتا ہے کہ اس خصوصی اسلامی تہذیب نفس کے ذریعے نفس اور خواہشات پر قابو پا لیا جاتا ہے۔
"ذکر" کی حقیقت
"خدا کا ذکر" صرف خدا کا نام لینا اور تسبیح و تہلیل اور تکبیر کو دہرانا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے دل سے اس ذات کی عظمت کی طرف متوجہ ہوں اور اسے ہر جگہ موجود اور دیکھنے والا سمجھیں۔ بلاشبہ اس طرح کا ذکر نیکیوں کی طرف رغبت اور تحریک کا ایک ذریعہ ہے۔
اس امر کا حصول خدا کی توجہ جلب کرنے کا موثر عامل ہے جو ہمیں خطرات سے بچاتا ہے اور یہ انسان کو گناہ یا اخلاقی برائیوں سے چھٹکارہ دلا سکتا ہے۔
اس طرح ذکر الٰہی کا تسلسل انسان کے قلب کو بیدار کرتا ہے، روح کو جلا بخشتا ہے اور چشم بصیرت کو بینائی عطا کرتا ہے جس کی روشنی میں انسان حق کو حق اور باطل کو باطل دیکھتا ہے اور اپنی سعادت کے دوست اور دشمن کو پہچاننے کے قابل ہو جاتا ہے۔
ہدایت اور توفیق کا باہمی تعلق
شیطان کے دام اور جال سے چھٹکارا حاصل کرنا خدا کی توفیق اور ہدایت کے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ شیطان کا مکر و فریب بہت سخت اور کاری ہے۔
لہٰذا جس کو خدا ہدایت دیتا ہے اور توفیق کو اس کا رفیق سفر بناتا ہے، وہی صحیح معنوں میں ہدایت یافتہ ہے۔ مَنْ یهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِی۔
اسی وجہ سے دعا کے آخری حصے میں ہم ہدایت کی نسبت خدا کی طرف دیتے ہیں کیونکہ اگر خدائی مدد اور توفیق نہ ہو تو کوئی بھی اپنی طاقت سے منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا، لیکن گمراہی کی نسبت انسان کی طرف دی جاتی ہے کیونکہ یہ اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔