مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک: رمضان المبارک کے چوتھے دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں: "اے خدا، مجھے اس مہینے میں اپنے حکم کی تعمیل کی توفیق دے اور مجھے اپنے ذکر کی حلاوت سے آشنا کر اور مجھے تیرا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا کر اور اپنے فضل سے میری حفاظت اور پردہ پوشی فرما، اے سب سے زیادہ دیکھنے والے۔
«اللهُمَ قَوِّنی فیهِ عَلی اقامَةِ امْرِکَ، وَاذِقْنی فیهِ حَلاوَةَ ذِکْرِکَ، وَاوْزِعْنی فیهِ لِأَدآءِ شُکْرِکَ بِکَرَمِکَ، وَاحْفَظْنی فیهِ بِحِفْظِکَ وَسَتْرِکَ، یا ابْصَرَ النَّاظِرینَ»
رمضان کا مہینہ عبادت اور اصلاح کا مہینہ ہے، گناہوں کو ترک کرنے اور خدا کی اطاعت کرنے کا مہینہ ہے۔
چنانچہ ایک روایت میں ہم پڑھتے ہیں: جب بھی رمضان المبارک کی آمد ہوتی تو امام زین العابدین علیہ السلام دعا، تسبیح، استغفار اور تکبیر کے علاوہ کوئی کلام نہیں فرماتے۔
لہذا اس مہینے میں نافلہ عبادت کو بہت زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔
لیکن اس اہمیت کا ادراک روحانی آمادگی پر منحصر ہے۔ ہماری تیاری یہ ہو کہ ہم اپنے دل کو آلودگیوں سے پاک کریں اور اپنی روح سے بغض، حسد اور دشمنی کی آلائشوں کو دور کریں تا کہ ہمیں عبادت کی اصل چاشنی حاصل ہو۔
کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نماز پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں لیکن ان میں نشاط و سرور نہیں ہوتا، اس عدم نشاط کے اہم عوامل میں سے ایک گناہ ہے جو لوگوں سے عبادت میں لذت و حلاوت چھین لیتا ہے۔
رمضان کا مہینہ عبادات کا موسم بہار ہے جس طرح موسم بہار انسانی جسم میں توانائی لاتا ہے اسی طرح رمضان کے مہینے میں انسان کو عبادت کے نتیجے میں روحانی قوت حاصل کرنی چاہیے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان پہلے سے تیاری نہ کرے۔ اور یہ تیاری بنیادی طور پر توبہ ہے۔
ماہ شعبان کے آخری ایام میں کثرت سے استغفار کرنا چاہیے اور اپنے دل و دماغ کو پاک کرنا چاہیے اس کے علاوہ عبادت میں نشاط و لذت حاصل کرنے کے لیے روزے کے فلسفے اور برکات پر توجہ دینی چاہیے۔
ہماری عبادت لذت و نشاط سے عاری کیوں ہے؟
ہم نے کئی بار یہ تجربہ کیا ہے کہ ہماری نمازیں بوریت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں، بعض اوقات ہم نماز میں اس قدر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں، گویا کہ نماز ایک ایسا عذاب ہے کہ جس سے ہمیں جلد جان چھڑا لینی چاہئے۔
سوال یہ ہے کہ ہم عبادت میں بے نشاط کیوں ہیں؟
جواب یہ ہے کہ اس کے مختلف عوامل ہیں۔ ہم میں سے کچھ لوگ جو اپنے اعمال میں نشاط نہیں پاتے ہیں وہ اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا، یا پھر وہ اس مقصد پر یقین نہیں رکھتے، یہ چیز عبادت میں سستی اور بے دلی کا سبب بنتی ہے، جیسا کہ کسی کے پاس مطالعہ کا ہدف نہ ہو تو وہ بوریت کے ساتھ پڑھتا ہے.
البتہ عبادات میں نشاط و سرور کی کمی بعض اوقات جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ سے بھی آتی ہے، جیسا کہ ہم نے اپنے روزمرہ کے کاموں میں کئی بار محسوس کیا ہے، جب ہم تھکے ہارے کام سے گھر آتے ہیں نماز میں تو دعا پڑھنا ہمارے لیے بوجھ بن جاتا ہے۔ پس بے مقصدیت اور تھکاوٹ دونوں کا علاج ایمان کو مضبوط کرنے اور تھکن کی حالت میں عمل کو ترک کر کے کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح زیادہ کھانا بھی عبادات میں سستی اور عدم نشاط کا باعث بنتا ہے۔
اسلام میں عبادات کے معاملے میں مختلف عوامل بیان ہوئے ہیں جو انسان کو نشاط و قلبی سرور عطا کرتے ہیں جیسے وضو کرنا، قرآن اور اذان کو خوبصورت آواز میں پڑھنا یا پھر رات کی نیند بوریت کو دور کرتی ہے اور خوشی دیتی ہے۔
البتہ، یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حلال غذا انسانی عبادت میں نشاط لانے میں انتہائی موثر ہے۔ اسی طرح حرام کھانا انسان کو روحانیت سے محروم کر دیتا ہے اور انسان کو قرآن کی تلاوت، نماز پڑھنے اور اس طرح کے دیگر کاموں میں لطف نہیں آتا۔
خدا کے ذکر کی حقیقی مٹھاس
چونکہ مادی زندگی میں غفلت کے اسباب بہت زیادہ ہیں اور شیاطین اور فتنے انسان پر ہر طرف سے حملہ آور ہوتے ہیں، اس لیے اس سے لڑنے کا کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جائے۔
توجہ رہے کہ ذکر الٰہی کا معنی صرف زبان سے یاد دہانی نہیں ہے، جو کہ دل کا ترجمہ ہے، مقصد یہ ہے کہ دل و جان سے خدا کو یاد کریں یہی توجہ انسان کو گناہ سے روکتی ہے اور خدا کے حکم کی تعمیل کی دعوت دیتی ہے۔ اس بنیاد پر ہمیں اللہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ عبادت کے دوران، گناہ کے مناظر، نعمتوں کے دوران اور آفات کے دوران کیونکہ خدا کا ذکر دلوں کو سکون بخشتا ہے البتہ صرف زبان پر ذکر جاری کرنے سے حقیقی مٹھاس نہیں ملتی بلکہ خدا کی معرفت اور گہرے قلبی لگاو سے اس کی عظمت کا ادراک انسان کو عبادت کے حقیقی نشاط سے معمور کر دیتا ہے۔
شکر گزاری کی توفیق
رمضان المبارک کے چوتھے دن کی دعا کے ایک اور حصے میں لکھا ہے: مجھے اپنے فضل و کرم سے شکر ادا کرنے کی توفیق عطا کر۔"
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کر سکتا ہے۔ کیونکہ انسان جن اعضا و جوارح سے خدا کا شکر بجا لائے گا یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی روایات میں مذکور ہے کہ انسان کا بہترین شکر یہ ہے کہ وہ اپنی بے بسی اور عاجزی کا اظہار کرے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکتا۔یہی عاجزی ہی شکر ہے۔
حقیقی شکر گزار کون ہے؟
سب سے پہلے لفظ "شکر" کی اصل پر توجہ دینا ضروری ہے:
"شکر" نعمت کا تصور اور اس کا اظہار ہے۔
"شکر" کی تین قسمیں ہیں: "قلبی شکر" اس کا مطلب ہے کہ نعمت کے بارے میں سوچنا و غور و فکر کرنا۔
"زبان کا شکر"۔ اس کا مطلب نعمت کی تعریف و ثناء گوئی ہے۔
اعضا و جوارح کے ذریع شکر: جس کا مطلب ہے خدا کی نعمتوں کی عملی قدردانی۔
حقیقی اور مکمل شکر یہ ہے کہ انسان ہر وقت خدا کو یاد کرے اور اس کے راستے پر بغیر کسی گناہ کےچلے اور اس کے حکم کی تعمیل کرے۔ البتہ یہ یقینی بات ہے کہ یہ صفات بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔
امام صادق علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ کیا خدا کے شکر کی کوئی حد ہے کہ اگر کوئی اس حد کو پہنچ جائے تو وہ شکر گزار سمجھا جائے گا؟ امام نے فرمایا: ہاں، سائل نے پوچھا: کیسے؟
امام نے فرمایا: انسان اپنے مال اور خاندان اور اسی طرح دیگر تمام نعمتوں پر شکر کرے اور اگر اس مال میں کوئی حقدار ہے تو اسے اس کا حق دا کرنا چاہئے۔