مہر خبررساں ایجنسی-دین و اندیشہ ڈیسک - فاطمہ علی آبادی: مسلمانوں کے طویل دور حکومت میں سے ایک خلافت عباسیہ کا دور ہے۔
عباسیوں کا شیعوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک ان کی پوری تاریخ میں شدت سے رہا۔ شیعہ ائمہ بھی مسلسل عباسیوں کے ظلم و ستم کی زد میں تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام خلافت عباسیہ کے زیر نظر تھے اور عباسی انہیں نقصان پہنچانے کے لئے طرح طرح کی سازشیں کرتے تھے، منصور نے امام صادق علیہ السلام کو مدینہ سے عراق بلوایا اور کوفہ میں ایک عرصہ تک زیر حراست رکھا اور مدینہ میں اپنے ایجنٹ کو امام ع کا گھر جلانے کا حکم دیا۔ منصور کے دور حکومت میں بہت سے علویوں کو قید کیا گیا اور کوفہ اور بغداد کی تاریک اور مرطوب جیلوں میں شہید کر دیا گیا۔منصور کے بعد کے عباسی خلفاء بھی علویوں کے قتل، تشدد اور ایذا رسانی سے باز نہیں آئے۔ 169ھ میں خلافت ہادی کے دور میں۔ عباسیوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر علویوں نے مدینہ میں بغاوت کردی۔
اس بارے میں بین الاقوامی امامت فاؤنڈیشن کی محقق طاہرہ موحدی پور سے ہماری گفتگو ہوئی ہے جو حسب ذیل ہے:
مہر رپورٹر کے ساتھ انٹرویو میں بین الاقوامی امامت فاؤنڈیشن کی محقق طاہرہ موحدی پور نے امام کاظم علیہ السلام کے دور میں شیعوں کی مشکلات اور مصائب کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا: بعض لوگوں نے اس شبہ کو ہوا دی ہے کہ امام کاظم علیہ السلام کے مشکلات و مصائب سے بھرے دور میں شیعوں میں سے کوئی بھی حضرت کی مدد کو کیوں نہیں آیا اور انہیں قید سے آزاد کرنے کے لیے اقدام کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال امامت اور اس کی شرائط کے بارے میں سائل کی ناواقفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سوال امامت کے بارے میں دستیاب نصوص بالخصوص موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی امامت کے دور کے کٹھن حالات اور تقیہ کی ضرورت سے لاعلمی کی پیدوار ہے!
طاہرہ موحدی نے اس شبہہ کے جواب میں کہا: پوری تاریخ میں بہت سے انبیاء اور ائمہ اپنے زمانے کے لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوئے یا انہیں ستایا گیا، اور یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور مدد نہ کرنا اس میں سے سب سے کم تر ہے۔ مثال کے طور پر بنی اسرائیل نے اپنے بہت سے انبیاء کو یہاں تک قتل کیا کہ یہ گناہ کبیرہ ان کے لیے ایک معمولی سا عمل بن گیا تھا۔
بین الاقوامی امامت فاؤنڈیشن کے محقق نے کہا: امامت اور ولایت کا اثبات لوگوں کی قبولیت پر منحصر نہیں ہے، جس طرح یہ بات انبیاء کے لیے صحیح ہے کہ وہ صرف خدا کی جانب سے نص کی بنیاد پر مبعوث ہوئے چاہے لوگ ان سے دشمنی ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔ امام کاظم علیہ السلام کے بارے میں بہت سی عمومی اور خاص نصوص موجود ہیں۔ آپ کی امامت کی عمومی نصوص مثلاً آیتِ اطاعت و ولایت، اور دیگر آیات و روایات جیسے حدیث ثقلین، حدیث منزلت، حدیث اثناعشر خلفاء اور دیگر روایات کہ جن پر تفصیلی کتابیں لکھی گئیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ شیعوں نے امام کاظم علیہ السلام کی مدد نہیں کی، بذات خود ایک بے بنیاد دعویٰ ہے اور ساتھ ہی سائل کی تاریخی منابع سے ناواقفیت بھی کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ امام کی مدد کی راہ میں آپ کے کئی شیعہ اور اصحاب و شاگرد شہید ہوئے۔
ان پر تشدد کیا گیا اور قید کیا گیا، اور بہت سے تو دور دراز کے علاقوں جا کر روپوش ہوئے۔ نیز، شیعوں کی اپنے امام کی نصرت نہ صرف انہیں قید سے بچانے کی صورت میں تھی، بلکہ بعض اوقات شیعہ تقیہ کے ذریعے حکومتی اداروں میں رسائی حاصل کرتے تھے اور اس طرح امام اور باقی ماننے والوں کی مدد کرتے تھے۔ ان میں علی بن یقطین، حسن بن راشد اور جعفر بن محمد بن اشعث جیسی عظیم شخصیات ہارون کے وزیروں میں شامل تھیں۔
موحدی نے مزید کہا کہ امام کی نصرت کی ایک اور مثال مالی معاملات میں مدد ہے۔
امام کاظم علیہ السلام کے شیعہ مختلف شہروں میں امام کے وکیلوں کے ذریعے شرعی وجوہات (خمس) امام تک پہنچاتے تھے۔ امام کے وکلاء کا نیٹ ورک پورے اسلامی ممالک میں پھیلا ہوا تھا۔ شیعوں اور امام کاظم کے درمیان رابطہ توڑنے کے لئے دباؤ اس قدر شدید تھا کہ بعض روایات کے مطابق عباسی حکمران اکثر امام کو ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے میں منتقل کرتے تھے اور امام کے مقام کو شیعوں پوشیدہ رکھا جاتا تھا۔ تاکہ انہیں امام تک پہنچنے سے روکا جاسکے۔
بین الاقوامی امامت فاؤنڈیشن کے محقق نے بیان کیا ہے کہ امام کاظم ع کی امامت کی مدت تقریباً پینتیس سال تھی جو کہ نسبتاً ایک طویل عرصہ ہے اور مختلف اقوال کے مطابق امام علیہ السلام پانچ سے چھے سال تک قید میں رہے۔ زندگی کے آخری چار سال مسلسل جیل میں گزرے۔
شیعوں کے اتحاد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سےعام شیعوں کی سیاسی اور علمی دانش میں شدید کمی۔
انہوں نے کہا کہ امام صادق علیہ السلام کی شہادت کے بعد مختلف فرقوں کی تشکیل نے شیعوں کے درمیان پھوٹ ڈالی جن میں اسماعیلیہ، فطحیہ اور ناووسیہ قابل ذکر ہیں۔ علاوہ از ایں بعض منحرف دھڑوں جیسے غلات (غالی) اور نواصب نے بھی شیعوں کے اتحاد کو کمزور کرنے کی غرض سے اختلافات کو ہوا دی اور امام کاظم علیہ السلام کی مدد کے لیے شیعوں کے اتحاد کو نقصان پہنچایا۔ جس کے نتیجے میں عباسی حکومت کا مقابلہ کرنے اور امام کی مدد کرنے کے لیے شیعوں کی صفوں میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکی۔
طاہرہ موحدی نے مزید کہا: عباسی حکمرانوں کے جبر اور شدید دباو کے سبب امام صادق علیہ السلام کو اگلے امام کا تعارف ایک خاص طریقے سے کرنا پڑا تاکہ عباسی حکومت کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔ چنانچہ امام نے اپنے خاص اصحاب کو کہا کہ اگلا امام موسیٰ بن جعفر (ع) ہوگا۔
بین الاقوامی امامت فاؤنڈیشن کے محقق نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ بعض شیعوں کے لیے انتشار اور ان کے بعد مختلف فرقوں کی تشکیل کا سبب بنا تھا، نیز اس ناقابل بیان دباو کے باعث کوئی بھی اہم اور اثر انگیز تحریک سختی سے کچل دی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب امام ایک قید خانے سے دوسری جیل میں منتقل ہوتے تھے تو انہوں نے شیعوں کی رسائی کو باقاعدگی سے روکا تھا، اور موسی بن جعفر علیہ السلام کی آزادی کے سالوں میں بھی ان کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ اس لیے امام کاظم علیہ السلام کی امامت کا دور خلافت عباسیہ کی طاقت کے عروج کا دور تھا اور امام نے حکومت وقت کے جبر کے باعث تقیہ کیا اور شیعوں کو بھی تقیہ کرنے کا حکم دیا تاکہ مزید شہادتوں سے بچا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ عباسی حکومت کے پھیلاو اور شیعوں کا مختلف علاقوں پر منتشر ہونا بھی ان کے اتحاد اور عباسی حکومت کے خلاف امام کی نصرت میں رکاوٹ بنا نیز امام سے ان کی دوری بے علمی اور دینی مسائل کے بارے میں ناواقفیت کا سبب بنی۔